آؤ زندگی سیکھیں

نیلم

محفلین
روزگار کی تلاش مجھے کراچی لے گئی۔ 3 مہینے تلاش جاری رہی۔ جو پیسے ساتھ لے کر گیا تھا ختم ہونے لگے۔ الحمد للہ چوتھے مہینے کلفٹن میں جاب مل گئی۔ رہائش نارتھ کراچی میں تھی جہاں سے کلفٹن تک 10 روپے کرائے میں خان کوچ کے ذریعے رسائی ممکن تھی۔

جاب ملنے کے تیسرے، چوتھے دن جیب کی حالت کو دیکھتے ہوئے زندگی میں پہلی اور آخری بار بجٹ بنانا پڑگیا۔ مہینہ گزارنا مشکل تھا، مینیو کافی مختصر کیا، تب بھی تنخواہ ملنے تک کا خرچہ جیب میں موجود رقم سے کافی زیادہ نکلا۔ بجٹ برابر کرنے کے لئے ناشتہ خارج کردیا تب بھی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی، پھر مجبوراً دوپہر کے کھانے سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ تب جا کر بجٹ کچھ یوں بنا کہ ہفتے میں ایک بار آدھا کلو پیاز خریدی جائے اور روزانہ آفس سے واپسی پر ایک عدد روٹی خریدی جائے اور پیاز کی ساتھ تناول فرمانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔

24 گھنٹے میں ایک روٹی پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود پیٹ کی آگ سے زیادہ اس بات کی تکلیف اور ڈر لگا رہا کہ کہیں ہمت جواب نہ دے جائے اور خداناخواسطہ رب سے شکوہ کرنے کی گستاخی سرزد نہ ہو جائے، لیکن نماز کی برکت نے صبر قائم رکھا۔
تنخواہ ملنے والے دن پتہ چلا کہ 5 دن بعد ملے گی۔ جیب میں صرف اتنے پیسے موجود تھے کہ 5 دن آفس آنے جانے کا کرایہ ہی ممکن تھا، اور خودداری اس بات پر آمادہ نہ تھی کہ باس یا کولیگز سے اپنی پریشانی بیان کی جائے۔

5 دن فاقہ میں گزر گئے، صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا۔ تنخواہ ملنے والے دن جب گھر سے نکلا تو جیب میں صرف 10 روپے موجود تھے، پریشانی نہ تھی کہ آفس پہنچنے کا کرایہ تو موجود ہے اور شام کو تنخواہ بھی مل جائے گی۔

بھوک کی تکلیف کی وجہ سے 3 دن کا جاگا ہوا تھا، گاڑی پر بیٹھتے ہی جسمانی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیند نے دبوچ لیا۔ آنکھ کھلی تو کلفٹن سے کوئی 3 کلومیٹر کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ یاد آیا کہ شاید کرایہ نہیں دیا، جیب میں موجود 10 روپے کے نوٹ نے تصدیق بھی کردی۔ کنڈیکٹر صاحب کرائے والے معاملات سے فارغ ہو کر ڈرائیور کے پاس بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے، اور میرے سمیت کوئی 3 مسافر آخری سٹاپ کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

دل خوش ہو گیا کہ چلو 10 روپے بچ گئے۔ سٹاپ سے آفس جاتے ہوئے راستے میں ایک چھپڑ ہوٹل پڑتا تھا، جہاں 3 روپے کی چائے اور 5 روپے کا پراٹھا ملتا تھا۔ 5 دن کے فاقے کو تسلی ہوئی کہ کچھ دیر میں اس ہوٹل پر بیٹھ کر چائے اور پراٹھے کا مزے لوں گا۔

گرما گرم چائے اور پراٹھا صرف 2 کلومیٹر کی دوری پر میرے منتظر تھے، دل میں خوشی کی لہریں مچل رہی تھیں کہ اچانک آواز آئی۔ "چائے کا ایک کپ اور ایک پراٹھا، اتنا سستا ایمان"؟
ہاہاہاہا، یقین کریں اس وقت بھی میں کچھ اسی طرح ہنس پڑا تھا "کمینے بھوکا مروائے گا؟

سیٹ سے اٹھا اور ڈرائیور کے قریب جا کر کنڈیکٹر بھائی کو 10 کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا کہ بھیا معافی چاہتا ہوں، سوگیا تھا اس لئے کرایہ نہیں دے سکا۔ کنڈیکٹر نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر نوٹ پکڑ لیا ۔ ۔ ۔ ۔

اچانک آواز آئی "اوئے کھوتے! امجد لالا سے کرایہ لو گے"؟
(اوئے گدھے! امجد بھائی سے کرایہ لو گے کیا؟)

یہ ڈرائیور خالد تھا، جو ہمارے کالج کی بس کا کنڈیکٹر ہوا کرتا تھا، کالج کا منچلا اور ہردلعزیز امجد اسے ابھی تک یاد تھا۔ میرے منع کرنے کے باوجود کرایہ مجھے واپس دے دیا گیا اور کچھ دیر بعد میں چھپڑ ہوٹل پر بیٹھا گرما گرم چائے اور پراٹھا انجوائے کر رہا تھا:)

اس واقعے کے بعد ایک بات تو سمجھ آگئی کہ جو چیز مقدر میں لکھی ہے اسے پانے کے لئے ایمان کا سودا کرنے کی ضرورت کیا ہے، وہ تو مل کر ہی رہنی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی چیزعطا نہیں کی تو یقیناً وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔
بہت ہی عمدہ بھائی
 

زبیر مرزا

محفلین
نایاب بھائی سیکھا آپ سے ہمیشہ یہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ سچ کہا اور سچ اپنے بارے میں کہا جو دل گردے کا کام ہے
ورنہ ہم تو صرف دوسروں کے سچ بیان کرتے ہیں جو سب سے آسان اور دلچسپ کام ہے
 

یوسف-2

محفلین
راجا جی! آپ تو محفل پر سب کو ہنسایا کرتے تھے۔ آج یہ رلانا کیوں شروع کردیا :cry: یہ کس سنہ کی بات ہے بھائی!
ویسے آپ اپنی دو دو ”زندگیوں“ :D کے حوالہ سے سے بھی اپنی زندگی کا یہ قیمتی تجربہ شیئر کیجئے کہ ایک زندگی کا تجربہ ناکافی کیوں لگا کہ دوسری زندگی کا تجربہ بھی کر ڈالا۔ اور اس سے آپ کی اقتصادی زندگی مزید خراب ہوئی یا مزید بہتر کیونکہ ایک ہی زندگی پر ”ایمان“ رکھنے والوں کا فرمان ہے کہ ایسا کرنے سے معاشی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ رزق میں برکت اور فراوانی ہوتی ہے۔ آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے۔
 
امجد علی راجا صاحب ، ایسا ہی ایک سلسلہ پہلے باباجی شروع کر چکے ہیں اسے ضرور دیکھیں
اطلاع کے لئے شکریہ زبیر بھیا! باباجی نے واقعی بہت خوب دھاگہ شروع کیا ہے، اللہ برکت دے اور کامیابی نصیب فرمائے۔ دونوں بھائیوں کے دونوں دھاگوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک دھاگے میں سچ بیتیاں ہیں، اور دوسرے دھاگے میں صرف وہ سچ بیتیاں ہیں جن سے زندگی میں کوئی مثبت تبیدیلی پیدا کرنے والا سبق حاصل ہوا ہو، اور جسے پڑھنے والوں کی رہنمائی بھی ہو سکے، اس دھاگے میں اس مقصد کی پابندی بھی ضروری ہے۔
 
بلاشبہ صبر اورایمان کی جن لوگوں نے حفاظت کی دین ودنیا میں سرخروہوئے اور سکون کی دولت سے مالامال
نایاب بھائی تلمیذ صاحب سید زبیر سر اگرکچھ تحریرکریں تو نوازش ہوگی
شکریہ، جزاک اللہ زبیر بھیا! یہی پیغام دینا مقصود ہے، جو ہمارے کردار کی تعمیر کر سکے۔
نایاب بھیا، تلمیذ بھیا اور باالخصوص سید زبیر بھیا تو تحریر فرمائیں گے ہی، ورنہ جائیں گے کہاں۔ ہم ان کے تجربات سے فیضیاب ہوئے بغیر جان نہیں بخشیں گے :)
 
بھئی آج تو بہت اچھے اچھے دھاگے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اصل میں تو ہم ایسی ہی باتوں کے لئے اردو محفل کے شیدائی ہیں۔ سیاسی موضوعات سے تو اپنی جان جاتی ہے۔ انشا اللہ، ضرور یہاں پر لکھنے کی کوشش کریں گے، @زبیرمرزا جی!
بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ اپنی زندگی میں سیکھے گئے اسباق ہماری رہنمائی کے لئے شیئر فرمائیں گے۔ انتظار رہے گا۔
 
پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ ۔۔۔ ۔۔ میں نے اس واقعے میں زندگی سے کیا سیکھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
نایاب بھیا! پڑھنے والوں نے کچھ نہ کچھ تو سیکھا ہوگا لیکن یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ آپ نے کیا سیکھا؟ کیونکہ کچھ دن بعد اس سلسلے کے اختتام پر میں ایک لسٹ بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ کس نے کیا سیکھا؟


میں تو آپ کی غلطی تسلیم کرنے کی جرات پر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا، اور آپ کے اس حوصلے کو میں انسانیت کا ایک اعلیٰ درجہ کہوں گا۔
اللہ کرے کہ آپ جیسی جرات ہم سب کو بھی عطا ہو جائے۔ والد مرحوم (اللہ انہیں اپنے رحم اور فضل سے نوازے) کہا کرتے تھے، اپنی غلطی تسلیم کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے جسے کرنے کے لئے بہت بڑا حوصلہ چاہئے ہوتا ہے، جس میں یہ حوصلہ نہ ہو اسے بزدل کہتے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
یہ تب کی بات ہے جب میں ایک ترقیاتی ادارے میں ایک معمولی سا سرکاری افسر، اور ایک سائٹ پلانٹ کا انچارج تھا، اور اپنا مذاق آپ یوں اُڑایا کرتا تھا کہ ع
دو پشت سے ہے پیشہ آباء کلرکی​
کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے :D
میں اس ”پاکستانی ادارے“ میں، جہاں کوئی 25-30 افراد ملازم تھے، ملک و قوم کی ”خدمت“ :D کے جذبہ کے تحت آیا تھا۔ قبل ازیں کئی کثیر القومی اداروں میں ملازمت کر چکا تھا اور اسی دوران ایک کالم میں نہ جانے کس دُھن میں سادگی میں یہ لکھ بیٹھا کہ یا اللہ میں ان امریکی و برطانوی اداروں کی کب تک ”خدمت“ کرتا رہوں گا۔ اپنے ”ملکی اداروں“ میں خدمت کا موقع کب ملے گا :) بس قبولیت ِ دعا کا وقت تھا کہ اس سرکاری ملازمت کی آفر ایک ”امتحان“ کی صورت میں مل گئی۔ امتحان یوں کہ نئی ملازمت کی تنخواہ پرانی ملازمت سے نصف تھی۔:eek: لیکن چونکہ یہ نئی ملازمت ایک دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھی، لہٰذا خوشی خوشی قبول کرلی کہ اب میں (بھی) ملک و قوم کی خدمت کیا کروں گا :)

جلد ہی سرکاری اداروں میں قومی خدمت کا ”راز“ فاش ہوگیا۔ پتہ چلا کہ بربنائے عہدہ ہر پروجیکٹ پر میرا سرکاری کمیشن (رشوت:eek: ) تین فیصد اور میرے باس کا چار فیصد ہے۔ اس سے زائد بھی مل سکتا ہے، اگرمحنت، کوشش اور جدو جہد کی جائے۔:grin: لیکن ہم نے روز اول یہ اعلان مشتہر کروادیا کہ ہم یہاں کمیشن لینے نہیں بلکہ قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر آئے ہیں۔ لہٰذا خبردار اگر کسی نے ہمیں کمیشن دینے کی کوشش کی۔ البتہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ دوسروں کے کمیشن لینے پر ہمیں کوئی ”اعتراض“ نہ ہوگا کہ ہمیں یہاں آتے ہی یہ ”معلوم“ ہوگیا تھا کہ جو دوسروں کے ” اضافی رزق“ کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے، اُسے ”عبرتناک مثال“ بنا دیا جاتا ہے۔ اس ادارہ کے ایک ایسے ہی سرکاری افسر کوجو نہ کمیشن لیتا تھا اور نہ کسی کو لینے دیتا تھا، اینٹی کرپشن کے ہاتھوں نشان زدہ نوٹ لیتے ہوئے گرفتار کروا کر اس کی خبر اخبارات میں لگواکر جیل بھجوایاجاچکا تھا۔ اینٹی کرپشن کی ٹیم کو اس ”خدمت“ کا معقول معاوضہ ملا تھا اور دیانت دار افسر اہل محلہ اور اہل خاندان میں یوں رُسوا ہوا کہ ۔۔۔ بڑے دیانت دار بنے پھرتے تھے۔ سب سے چھپ کر اندر ہی اندر یہ ”گُل کھلاتے“ رہے ہیں۔ :eek: اور میں اپنی اس قسم کی تشہیر نہیں چاہتا تھا، وہ بھی اپنے ”ہم پیشہ صحافی“ بھائیوں کے سامنے۔ :eek:

القصہ مختصر اس دوران کئی پروجیکٹس میں حصہ لیا۔ اپنے حصہ کا کام ڈرتے ڈرتے :D دیانتداری سے انجام دیتا رہا اور میرے حصہ کا کمیشن میرے نیچے اور اوپر والے مل بانٹ کر کھاتے رہے۔ اور میں اس آدھی تنخواہ کے ساتھ صحافت کی دوسری نوکری کر کے گذارا کرتا رہا ۔ ۔ ۔ کہ اسی دوران ایک بہت بڑا پروجیکٹ شروع ہوا۔ ایک روز میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ ایک صاحب آئے پتہ چلا وہ ورلڈ بنک کی فنڈنگ سے شروع کئے جانے والے اس پروجیکٹ کے روح رواں ہیں۔ جب انہیں میرا پس منظر معلوم ہوا کہ میں اندرون اور بیرون ملک کئی کثیر القومی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتا ہوں تو انہوں نے مجھے پیشکش کی کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ اس نئے پروجیکٹ میں آجائیے۔ ہم اس پروجیکٹ کا جلد ہی آغاز کرنے والے ہیں۔ اور ٹیکنیکل اسٹاف کو ٹریننگ کے لئے یوکے وغیرہ بھی بھجوائیں گے اور یہ پروجیکٹ اتنے ارب روپے کا ہے وغیرہ وغیرہ میں نے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم پروجیکٹ میں کام کرنے پر مجھے بھی خوشی ہوگی۔ انہوں نے پوچھا کہ پھر کب سے وہاں جوائن کرسکتے ہیں۔ میں آپ کا ٹرانسفر وہاں کروادیتا ہوں۔ میں نے کہا۔ لیکن پہلے آپ مجھے یہ تو بتلا دیں کہ وہاں آپ مجھے سیلری پیکیج وغیرہ کیا دیں گے؟ موصوف نے مجھے ایسے گھور کر دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں آپ جیسا بیوقوف پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ جو ہُن برسنے والے پروجیکٹ میں جانے کے لئے سیلری پیکیج کی بات کر رہا ہے۔ :eek: وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ چلیں پھر آپ سے بعد میں بات ہوگی۔ اُن کے رخصت ہونے کے بعد میری (نادان) سمجھ :D میں آیا کہ یکایک ان کا لہجہ کیوں بدل گیا۔ اور چند برس بعد جب وہ پروجیکٹ مکمل ہوگیا تو اس پروجیکٹ کے ایک حصہ کا چارج سنبھالنے کا مجھے ” آفس آرڈر“ مل گیا اور یہ بدھو (مفت میں) ملک و قوم کی خدمت کرنے وہاں پہنچ گیا، جہاں سے لوگ اپنی اپنی جیبیں بھرنے کے بعد واپس ہورہے تھے، بیک ٹرانسفر کروا کروا کر۔ ہم نے یہاں بھی سوکھی تنخواہ پر شہر سے کافی دور ”قومی خدمت“ انجام دیتے رہے۔ جہاں آنے جانے کے لئے (کوئی دو عشرہ قبل) مجھے اپنی گاڑی میں روزانہ چار سو کا فیول ڈلوانہ پڑتا تھا۔:D



اس دوران شیطانی وسوسہ کے تحت یہ بھی حساب کتاب لگاتا رہا کہ اگر ابتدا ہی میں آجاتا تو اب تک کتنا کما چکا ہوتا۔ فلاں اور فلاں نے تو اتنا اتنا کما لیا ہے :p لیکن پھر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اُس نے رزق حرام سے بچائے رکھا۔ پھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور مجھے ایک بار پھر ایک کثیر الاقومی ادارے میں جاب کی آفر ہوئی اور میں بلا کسی تامل کے وہاں پہنچ گیا کہ تب تک مجھے ”قومی خدمت“ کا حقیقی مفہوم معلوم ہوچکا تھا کہ اس خدمت کے لئے کسی سرکاری ادارہ میں ملازمت کرنا ضروری نہیں ہے :p اور جلد ہی میں نے وہ ”سب کچھ“ حاصل کرلیا جو میرے ساتھیوں نے اُس پروجیکٹ کے کمیشن سے حاصل کیا تھا۔ لیکن میں نے الحمدللہ وہی سب کچھ رزق حلال سے حاصل کرلیا ۔ میرا پہلے بھی ایمان تھا کہ جو نصیب میں میرے نام لکھا ہے، وہ مجھے مل کر رہے گا۔ لیکن اس ذاتی تجربہ نے اس ایمان کو اور بھی مضبوط کردیا۔ یہ میری ”اقتصادی زندگی“ کا ایک اہم ترین تجربہ ہے۔ اللہ ہم سب کو رزق حلال کمانے کی توفیق دے اور یہ ایمان بھی دے کہ جو کچھ نصیب میں ہے، وہ مل کر رہے گا۔ خواہ ہم اسے جائز طریقہ سے حاصل کریں یاناجائز طریقہ سے۔
 
راجا جی! آپ تو محفل پر سب کو ہنسایا کرتے تھے۔ آج یہ رلانا کیوں شروع کردیا :cry: یہ کس سنہ کی بات ہے بھائی!
ویسے آپ اپنی دو دو ”زندگیوں“ :D کے حوالہ سے سے بھی اپنی زندگی کا یہ قیمتی تجربہ شیئر کیجئے کہ ایک زندگی کا تجربہ ناکافی کیوں لگا کہ دوسری زندگی کا تجربہ بھی کر ڈالا۔ اور اس سے آپ کی اقتصادی زندگی مزید خراب ہوئی یا مزید بہتر کیونکہ ایک ہی زندگی پر ”ایمان“ رکھنے والوں کا فرمان ہے کہ ایسا کرنے سے معاشی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ رزق میں برکت اور فراوانی ہوتی ہے۔ آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے۔
بات تو آپ کی درست ہے یوسف بھیا! لیکن اس دھاگے کا مقصد رلانا نہیں سیکھنا سکھنا ہے۔
اور دو زندگیوں کے حوالے سے میری قیمتی رائے معلوم کرنے میں آپ کی دلچسپی کی وجہ؟ وجہ بیان فرمائیں، اگر معقول ہوئی تو ضرور جواب دوں گا۔ (ابھی ایک بھی نہیں ہوئی اور دو کا تجربہ پوچھ رہے ہیں جناب، ارادے صاف نظر آتے ہیں جناب کے) :D
 
جو کچھ نصیب میں ہے، وہ مل کر رہے گا۔ خواہ ہم اسے جائز طریقہ سے حاصل کریں یاناجائز طریقہ سے۔

بہت خوب یوسف بھیا! یہ واقعہ سننے کے بعد دل میں آپ کے لئے عزت مزید بڑھ گئی۔
تو آپ کے وسیلے سے ہم نے سیکھا کہ جو کچھ نصیب میں ہے، وہ مل کر رہے گا۔ خواہ ہم اسے جائز طریقہ سے حاصل کریں یاناجائز طریقہ سے۔
 

سید زبیر

محفلین
شکریہ، جزاک اللہ زبیر بھیا! یہی پیغام دینا مقصود ہے، جو ہمارے کردار کی تعمیر کر سکے۔
نایاب بھیا، تلمیذ بھیا اور باالخصوص سید زبیر بھیا تو تحریر فرمائیں گے ہی، ورنہ جائیں گے کہاں۔ ہم ان کے تجربات سے فیضیاب ہوئے بغیر جان نہیں بخشیں گے :)
شکریہ امجد علی راجا ! یہ چار سلسلے علیحدہ علیحد ہ ہیں دیکھیں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں
 
شکریہ نیلم بہنا، جزاک اللہ
مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میری "داستانِ غربت" پڑھ کر میرے دوستوں، بہنوں اور بھائیوں کی نظر میں میرے وقار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حوصلہ افزائی کے لئے سب کا شکرگزار ہوں۔
 
میں نے سید زبیر بھیا کا ایک مراسلہ پڑھا، ان کے behalf پر یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ اس مراسلے میں جو سبق سید صاحب نے سیکھا، وہ میں نے بھی سیکھ لیا اور آپ سب صاحبان کی خدمت میں بھی پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ بھی "زندگی سیکھیں"​
بقول سید زبیر بھیا​
"میں نے جو سیکھا وہ یہ کہ ہر امر کا ایک وقت مقرر ہے جو اس وقت واقعہ ہوتا ہے کوشش فرض ہے کہ نہ جانے وہ وقت کب ہو ۔حلال کی کمائی میں جو سکوں اور عزت ہے وہ حرام میں نہیں ہے کسی کی حق تلفی نہ کریں آپ کی حق کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ کسی ظاہری حیثیت کو مت دیکھیں ہو سکتا ہے وہ شخص آپ سے زیادہ خوبیوں کا مالک ہو کیونکہ اللہ تبارک ٰ تعالیٰ انسان کو وہ تمام صلا حیتیں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتے ہیں جو اس کے زندگی کے سفر میں کام آتی ہیں"​
سید زبیر بھیا کا ایک اور مراسلہ بھی پڑھنے کا موقع ملا جس کا حاصل یہ تھا کہ " اللہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"​
سید زبیر بھیا، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ خود اپنا کوئی سبق آموز واقعہ یہاں تحریر فرمائیں اور "زندگی سیکھنے" میں ہماری مدد فرمائیں۔​
 

نیلم

محفلین
شکریہ نیلم بہنا، جزاک اللہ
مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میری "داستانِ غربت" پڑھ کر میرے دوستوں، بہنوں اور بھائیوں کی نظر میں میرے وقار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حوصلہ افزائی کے لئے سب کا شکرگزار ہوں۔
بالکل آپ کے وقار میں فرق آیا آپ کی عزت اور بڑھ گئی ہے۔کہ آپ بھی محنتی اور ایماندار لوگوں میں شامل ہیں :)
 
Top