آؤ زندگی سیکھیں

"انسان زندگی سمجھنے میں زندگی گزار دیتا ہے، اور جب زندگی سمجھ آنے لگتی ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے"
کچھ دن پہلے نجانے کس دھن میں یہ بات کہہ گیا تھا میں۔ کل رات کو خیال آیا کہ فورم پر اتنے تجربہ کار لوگ موجود ہیں تو کیا ہی اچھا ہو کہ سب اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ شیئر کریں جس سے انہوں نے کچھ سیکھا ہو، یقینا ً ان کے تجربات سے دوسروں کو بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور زندگی آسان ہو جائے گی۔
زیادہ سے زیادہ محفلین کو مدعو کریں تا کہ سیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مواد اکٹھا ہو سکے۔​
 
روزگار کی تلاش مجھے کراچی لے گئی۔ 3 مہینے تلاش جاری رہی۔ جو پیسے ساتھ لے کر گیا تھا ختم ہونے لگے۔ الحمد للہ چوتھے مہینے کلفٹن میں جاب مل گئی۔ رہائش نارتھ کراچی میں تھی جہاں سے کلفٹن تک 10 روپے کرائے میں خان کوچ کے ذریعے رسائی ممکن تھی۔

جاب ملنے کے تیسرے، چوتھے دن جیب کی حالت کو دیکھتے ہوئے زندگی میں پہلی اور آخری بار بجٹ بنانا پڑگیا۔ مہینہ گزارنا مشکل تھا، مینیو کافی مختصر کیا، تب بھی تنخواہ ملنے تک کا خرچہ جیب میں موجود رقم سے کافی زیادہ نکلا۔ بجٹ برابر کرنے کے لئے ناشتہ خارج کردیا تب بھی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی، پھر مجبوراً دوپہر کے کھانے سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ تب جا کر بجٹ کچھ یوں بنا کہ ہفتے میں ایک بار آدھا کلو پیاز خریدی جائے اور روزانہ آفس سے واپسی پر ایک عدد روٹی خریدی جائے اور پیاز کی ساتھ تناول فرمانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔

24 گھنٹے میں ایک روٹی پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود پیٹ کی آگ سے زیادہ اس بات کی تکلیف اور ڈر لگا رہا کہ کہیں ہمت جواب نہ دے جائے اور خداناخواسطہ رب سے شکوہ کرنے کی گستاخی سرزد نہ ہو جائے، لیکن نماز کی برکت نے صبر قائم رکھا۔
تنخواہ ملنے والے دن پتہ چلا کہ 5 دن بعد ملے گی۔ جیب میں صرف اتنے پیسے موجود تھے کہ 5 دن آفس آنے جانے کا کرایہ ہی ممکن تھا، اور خودداری اس بات پر آمادہ نہ تھی کہ باس یا کولیگز سے اپنی پریشانی بیان کی جائے۔

5 دن فاقہ میں گزر گئے، صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا۔ تنخواہ ملنے والے دن جب گھر سے نکلا تو جیب میں صرف 10 روپے موجود تھے، پریشانی نہ تھی کہ آفس پہنچنے کا کرایہ تو موجود ہے اور شام کو تنخواہ بھی مل جائے گی۔

بھوک کی تکلیف کی وجہ سے 3 دن کا جاگا ہوا تھا، گاڑی پر بیٹھتے ہی جسمانی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیند نے دبوچ لیا۔ آنکھ کھلی تو کلفٹن سے کوئی 3 کلومیٹر کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ یاد آیا کہ شاید کرایہ نہیں دیا، جیب میں موجود 10 روپے کے نوٹ نے تصدیق بھی کردی۔ کنڈیکٹر صاحب کرائے والے معاملات سے فارغ ہو کر ڈرائیور کے پاس بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے، اور میرے سمیت کوئی 3 مسافر آخری سٹاپ کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

دل خوش ہو گیا کہ چلو 10 روپے بچ گئے۔ سٹاپ سے آفس جاتے ہوئے راستے میں ایک چھپڑ ہوٹل پڑتا تھا، جہاں 3 روپے کی چائے اور 5 روپے کا پراٹھا ملتا تھا۔ 5 دن کے فاقے کو تسلی ہوئی کہ کچھ دیر میں اس ہوٹل پر بیٹھ کر چائے اور پراٹھے کا مزے لوں گا۔

گرما گرم چائے اور پراٹھا صرف 2 کلومیٹر کی دوری پر میرے منتظر تھے، دل میں خوشی کی لہریں مچل رہی تھیں کہ اچانک آواز آئی۔ "چائے کا ایک کپ اور ایک پراٹھا، اتنا سستا ایمان"؟
ہاہاہاہا، یقین کریں اس وقت بھی میں کچھ اسی طرح ہنس پڑا تھا "کمینے بھوکا مروائے گا؟

سیٹ سے اٹھا اور ڈرائیور کے قریب جا کر کنڈیکٹر بھائی کو 10 کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا کہ بھیا معافی چاہتا ہوں، سوگیا تھا اس لئے کرایہ نہیں دے سکا۔ کنڈیکٹر نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر نوٹ پکڑ لیا ۔ ۔ ۔ ۔

اچانک آواز آئی "اوئے کھوتے! امجد لالا سے کرایہ لو گے"؟
(اوئے گدھے! امجد بھائی سے کرایہ لو گے کیا؟)

یہ ڈرائیور خالد تھا، جو ہمارے کالج کی بس کا کنڈیکٹر ہوا کرتا تھا، کالج کا منچلا اور ہردلعزیز امجد اسے ابھی تک یاد تھا۔ میرے منع کرنے کے باوجود کرایہ مجھے واپس دے دیا گیا اور کچھ دیر بعد میں چھپڑ ہوٹل پر بیٹھا گرما گرم چائے اور پراٹھا انجوائے کر رہا تھا:)

اس واقعے کے بعد ایک بات تو سمجھ آگئی کہ جو چیز مقدر میں لکھی ہے اسے پانے کے لئے ایمان کا سودا کرنے کی ضرورت کیا ہے، وہ تو مل کر ہی رہنی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی چیزعطا نہیں کی تو یقیناً وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
امجد بھائی آنکھیں تر کر دیں آپ کی اس تحریر میں۔۔۔۔!

بہت بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا آپ نے۔۔۔۔! ایسی خودی اور ایسی خوداری آج کے دور میں تو شاید ہی کہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے لئے بہت اجر ہوگا ان شاءاللہ۔۔۔۔!
 
امجد بھائی آنکھیں تر کر دیں آپ کی اس تحریر میں۔۔۔ ۔!

بہت بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا آپ نے۔۔۔ ۔! ایسی خودی اور ایسی خوداری آج کے دور میں تو شاید ہی کہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے لئے بہت اجر ہوگا ان شاءاللہ۔۔۔ ۔!
انشاءاللہ
جزاک اللہ محمد احمد بھیا!
میں بہت کمزور سا انسان ہوں احمد بھیا! یہ تو اللہ پاک کی مہربانی کہ انہوں نے زندگی میں کچھ سکھانا تھا، اس لئے اندر کے انسان کو اُس وقت جگا دیا۔ الحمد للہ
 
اس سے ایک اور واقعہ یاد آیا جو قبلہ شاہ صاحب نے سنایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے لڑکپن کے دن تھے اور میں اپنے والد مرحوم (جو پیری مریدی کرتے تھے) کے حلقہ احباب میں بیٹھا کرتا تھا۔ ان میں ایک ایڈووکیٹ صاحب تھے جو بہت قابل وکیل تھے۔ لیکن ایک بات ان میں بہت عجیب تھی۔ اور وہ یہ کہ اچانک بیٹھے بیٹھے کبھی کبھار اپنے منہ پر ایک زوردار تھپڑ رسید کردیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی محفل میں اچانک انہوں نے یہی کام کیا تو اس محفل کے برخاست ہونے کے بعد میں انکے پاس گیا اور چونکہ وہ والد مرحوم کی وجہ سے مجھ سے کافی شفقت سے پیش آتے تھے، میں نے بے تکلفی سے یہ سوال کردیا کہ یہ آپ بیٹھے بیٹھے اچانک ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ "سید! اسکے پیچھے ایک واقعہ ہے۔" میں نے جب وہ واقعہ جاننے کی خواہش کی تو کہنے لگے:
" میری وکالت کے کیریر کے دوران ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ مجھے کسی فریق نے دو لاکھ روپے (اس زمانے میں کروڑ کے برابر تھے) سے بھرا ہوا بریف کیس بطور رشوت دینے کی کوشش کی۔ اور میں ان دنوں اتنی High spirits میں تھا کہ کھڑے کھڑے اس شخص کی بے عزتی کرکے نکال دیا اور الحمدللہ پوری زندگی مجھے اس فعل پر کبھی پچھتاوا محسوس نہیں ہوا بلکہ اللہ کا شکر ہی ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ توفیق دی۔ اب تم سوچ رہے ہوگے کہ اس میں ایسی کیا بات ہے کہ اپنے منہ پر تھپڑ رسید کیا جائے؟۔ تو بات یہ ہے کہ اس واقعے کے چند ماہ بعد میں لاہور کے اندرون شہر سے تانگے پر مصری شاہ کے علاقے میں جارہا تھا۔ جب منزل آگئی اور میں نے تانگے والے کو کرایہ ادا کیا تو اس نے مجھے بقایا پیسے واپس کئے۔ ان پیسوں میں ایک اٹھنی زیادہ آگئی اور تانگے والے کو اسکا علم نہ ہوا۔ مجھے پتہ چل گیا لیکن میں چپ کرکے وہ زائد اٹھنی اپنی جیب میں ڈال کر چلتا بنا۔۔۔اب مجھے جب بھی یہ حرکت یاد آتی ہے تو میں بے اختیار اپنے منہ پر تھپڑ رسید کرتا ہوں خواہ کسی محفل میں ہوں یا تنہائی میں۔"
:)
 

باباجی

محفلین
اوئے ہوئے کیا تلخ یادیں چھیڑ دیں راجا صاحب آپ نے
میری اب تک زندگی میں کئی بار ایسی بدترین سچویشن آئی کہ میں سمجھا اب کچھ نہیں ہو سکتا
لیکن اچانک ایسا کرم ہوا کہ عقل دنگ رہ گئی دماغ ماؤف ہوگیا
ذرا میموری ری کال کرنے دیں پھر کچھ شیئر کرتا ہوں
 
اوئے ہوئے کیا تلخ یادیں چھیڑ دیں راجا صاحب آپ نے
میری اب تک زندگی میں کئی بار ایسی بدترین سچویشن آئی کہ میں سمجھا اب کچھ نہیں ہو سکتا
لیکن اچانک ایسا کرم ہوا کہ عقل دنگ رہ گئی دماغ ماؤف ہوگیا
ذرا میموری ری کال کرنے دیں پھر کچھ شیئر کرتا ہوں
آپکا تو وہ آپ بیتی والا دھاگہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔۔اسکو بھی زندہ کیجئے
 
اوئے ہوئے کیا تلخ یادیں چھیڑ دیں راجا صاحب آپ نے
میری اب تک زندگی میں کئی بار ایسی بدترین سچویشن آئی کہ میں سمجھا اب کچھ نہیں ہو سکتا
لیکن اچانک ایسا کرم ہوا کہ عقل دنگ رہ گئی دماغ ماؤف ہوگیا
ذرا میموری ری کال کرنے دیں پھر کچھ شیئر کرتا ہوں
ضرور بابا جی، انتظار رہے گا۔ اچھا انسان بننے کے لئے اچھی باتیں سیکھنا بہت ضروری ہے۔
 
اس واقعے کے چند ماہ بعد میں لاہور کے اندرون شہر سے تانگے پر مصری شاہ کے علاقے میں جارہا تھا۔ جب منزل آگئی اور میں نے تانگے والے کو کرایہ ادا کیا تو اس نے مجھے بقایا پیسے واپس کئے۔ ان پیسوں میں ایک اٹھنی زیادہ آگئی اور تانگے والے کو اسکا علم نہ ہوا۔ مجھے پتہ چل گیا لیکن میں چپ کرکے وہ زائد اٹھنی اپنی جیب میں ڈال کر چلتا بنا۔۔۔ اب مجھے جب بھی یہ حرکت یاد آتی ہے تو میں بے اختیار اپنے منہ پر تھپڑ رسید کرتا ہوں خواہ کسی محفل میں ہوں یا تنہائی میں۔"
:)


ہم انسان بھی بہت عجیب مخلوق ہیں، کبھی اتنے قیمتی کہ وزن کے برابر سونا دے کر بھی کوئی نہیں خرید سکتا، اور کبھی اتنے سستے کہ مٹی کے عوض بِک جاتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو گمراہی سے محفوظ فرمائے۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
روزگار کی تلاش مجھے کراچی لے گئی۔ 3 مہینے تلاش جاری رہی۔ جو پیسے ساتھ لے کر گیا تھا ختم ہونے لگے۔ الحمد للہ چوتھے مہینے کلفٹن میں جاب مل گئی۔ رہائش نارتھ کراچی میں تھی جہاں سے کلفٹن تک 10 روپے کرائے میں خان کوچ کے ذریعے رسائی ممکن تھی۔

جاب ملنے کے تیسرے، چوتھے دن جیب کی حالت کو دیکھتے ہوئے زندگی میں پہلی اور آخری بار بجٹ بنانا پڑگیا۔ مہینہ گزارنا مشکل تھا، مینیو کافی مختصر کیا، تب بھی تنخواہ ملنے تک کا خرچہ جیب میں موجود رقم سے کافی زیادہ نکلا۔ بجٹ برابر کرنے کے لئے ناشتہ خارج کردیا تب بھی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی، پھر مجبوراً دوپہر کے کھانے سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ تب جا کر بجٹ کچھ یوں بنا کہ ہفتے میں ایک بار آدھا کلو پیاز خریدی جائے اور روزانہ آفس سے واپسی پر ایک عدد روٹی خریدی جائے اور پیاز کی ساتھ تناول فرمانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔

24 گھنٹے میں ایک روٹی پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود پیٹ کی آگ سے زیادہ اس بات کی تکلیف اور ڈر لگا رہا کہ کہیں ہمت جواب نہ دے جائے اور خداناخواسطہ رب سے شکوہ کرنے کی گستاخی سرزد نہ ہو جائے، لیکن نماز کی برکت نے صبر قائم رکھا۔
تنخواہ ملنے والے دن پتہ چلا کہ 5 دن بعد ملے گی۔ جیب میں صرف اتنے پیسے موجود تھے کہ 5 دن آفس آنے جانے کا کرایہ ہی ممکن تھا، اور خودداری اس بات پر آمادہ نہ تھی کہ باس یا کولیگز سے اپنی پریشانی بیان کی جائے۔

5 دن فاقہ میں گزر گئے، صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا۔ تنخواہ ملنے والے دن جب گھر سے نکلا تو جیب میں صرف 10 روپے موجود تھے، پریشانی نہ تھی کہ آفس پہنچنے کا کرایہ تو موجود ہے اور شام کو تنخواہ بھی مل جائے گی۔

بھوک کی تکلیف کی وجہ سے 3 دن کا جاگا ہوا تھا، گاڑی پر بیٹھتے ہی جسمانی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیند نے دبوچ لیا۔ آنکھ کھلی تو کلفٹن سے کوئی 3 کلومیٹر کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ یاد آیا کہ شاید کرایہ نہیں دیا، جیب میں موجود 10 روپے کے نوٹ نے تصدیق بھی کردی۔ کنڈیکٹر صاحب کرائے والے معاملات سے فارغ ہو کر ڈرائیور کے پاس بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے، اور میرے سمیت کوئی 3 مسافر آخری سٹاپ کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

دل خوش ہو گیا کہ چلو 10 روپے بچ گئے۔ سٹاپ سے آفس جاتے ہوئے راستے میں ایک چھپڑ ہوٹل پڑتا تھا، جہاں 3 روپے کی چائے اور 5 روپے کا پراٹھا ملتا تھا۔ 5 دن کے فاقے کو تسلی ہوئی کہ کچھ دیر میں اس ہوٹل پر بیٹھ کر چائے اور پراٹھے کا مزے لوں گا۔

گرما گرم چائے اور پراٹھا صرف 2 کلومیٹر کی دوری پر میرے منتظر تھے، دل میں خوشی کی لہریں مچل رہی تھیں کہ اچانک آواز آئی۔ "چائے کا ایک کپ اور ایک پراٹھا، اتنا سستا ایمان"؟
ہاہاہاہا، یقین کریں اس وقت بھی میں کچھ اسی طرح ہنس پڑا تھا "کمینے بھوکا مروائے گا؟

سیٹ سے اٹھا اور ڈرائیور کے قریب جا کر کنڈیکٹر بھائی کو 10 کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا کہ بھیا معافی چاہتا ہوں، سوگیا تھا اس لئے کرایہ نہیں دے سکا۔ کنڈیکٹر نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور پھر ہاتھ بڑھا کر نوٹ پکڑ لیا ۔ ۔ ۔ ۔

اچانک آواز آئی "اوئے کھوتے! امجد لالا سے کرایہ لو گے"؟
(اوئے گدھے! امجد بھائی سے کرایہ لو گے کیا؟)

یہ ڈرائیور خالد تھا، جو ہمارے کالج کی بس کا کنڈیکٹر ہوا کرتا تھا، کالج کا منچلا اور ہردلعزیز امجد اسے ابھی تک یاد تھا۔ میرے منع کرنے کے باوجود کرایہ مجھے واپس دے دیا گیا اور کچھ دیر بعد میں چھپڑ ہوٹل پر بیٹھا گرما گرم چائے اور پراٹھا انجوائے کر رہا تھا:)

اس واقعے کے بعد ایک بات تو سمجھ آگئی کہ جو چیز مقدر میں لکھی ہے اسے پانے کے لئے ایمان کا سودا کرنے کی ضرورت کیا ہے، وہ تو مل کر ہی رہنی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کوئی چیزعطا نہیں کی تو یقیناً وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔
سبحان اللہ بھائی بہت بلند حوصلہ پایا ہے۔۔۔۔۔۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت زبردست سلسلہ راجا صاحب اورآپ نے جو واقعہ بیان کیا پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں بلاشبہ صبر اورایمان کی جن لوگوں نے حفاظت کی
دین ودنیا میں سرخروہوئے اور سکون کی دولت سے مالامال
نایاب بھائی تلمیذ صاحب سید زبیر سر اگرکچھ تحریرکریں تو نوازش ہوگی
محمودبھائی آپ کی تحریر کی تعریف ممکن نہیں ایسے واقعات ہماری رہنمائی اورکردار کی تعمیر کرتے ہیں جزاک اللہ
اورایک بات حسن اوردلکشی اہل سادات کی میراث ہے آپ کے حسن اورکشش کا راز بھی جان لیا اس تحریرسے
 

تلمیذ

لائبریرین
بھئی آج تو بہت اچھے اچھے دھاگے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اصل میں تو ہم ایسی ہی باتوں کے لئے اردو محفل کے شیدائی ہیں۔ سیاسی موضوعات سے تو اپنی جان جاتی ہے۔ انشا اللہ، ضرور یہاں پر لکھنے کی کوشش کریں گے، @زبیرمرزا جی!
 

بھلکڑ

لائبریرین
بھئی آج تو بہت اچھے اچھے دھاگے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اصل میں تو ہم ایسی ہی باتوں کے لئے اردو محفل کے شیدائی ہیں۔ سیاسی موضوعات سے تو اپنی جان جاتی ہے۔ انشا اللہ، ضرور یہاں پر لکھنے کی کوشش کریں گے، @زبیرمرزا جی!
ہاں واقعی !:uncle:
 

عمراعظم

محفلین
جے میں دیکھاں عملاں ولّے، ’کج نئیں میرے پلے
جے دیکھاں تیری رحمت ؤلّے، بلے بلے بلے
جی سر ! میں نے تو اپنی کہانی کہہ دی جناب امجد علی راجا صاحب۔ البتہ فرصت ملنے پر آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی۔
 

نایاب

لائبریرین
زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ رہنے والوں کو اپنی ٹھوکروں پہ رکھ اپنے حوادث میں الجھا اپنی حقیقتوں کو خود عیاں کرتی ہے ۔
بہت کڑے امتحان لیتی ہے ۔۔۔۔۔ پھر بھی " بے وفا " ٹھہرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آوارگی بھرے بچپن کی اک جھلک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نان چھولے کھانے کو بہت دل کر رہا تھا ۔ والد اور والدہ اپنی ڈیوٹی پر جا چکے تھے ۔ اور ان کی جیب اور پرس میری دسترس سے دور تھا ۔ گھر میں ہر ممکنہ جگہ کی تلاشی لینے کے باوجود کھوٹا سکہ بھی ہاتھ نہ لگا تھا ۔ کہ گھر والے اب میری عادتوں کو جانتے بہت محتاط ہو چکے تھے ۔
گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ " مائی حجن " اپنے گھر کے دروازے پہ کھڑی ہیں ۔ اللہ بلند درجات سے نوازے آمین ۔ بہت عمر رسیدہ بہت مشفق خاتون تھیں ۔ ان کو سلام کرتے جب ان کے سامنے سے گزرا تو انہوں نے آواز دی کہ " بیٹا مجھے اک سیر گھی لا دے " اور سو روپے کا اک نیا نکور نوٹ مجھے تھما دیا ۔ سن تہتر میں یہ سو روپے کی کیا حیثیت تھی ۔ یہ آج کے مجھ جیسے " اولڈ ینگ مین " خوب جانتے ہیں ۔
" بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا " میں نے سو کا نوٹ پکڑا اور سیدھے نان چھولوں کی ریڑھی کا رخ کیا ۔ خوب رج کر کھائے ۔ غباروں پہ نشانہ بازی بھی کی ۔ آنے آنے والی لاٹریاں بھی خوب نکالیں ۔ آوارہ گردی کرتے صبح سے شام ہو گئی ۔ جب گھر کا رخ کیا تو " مائی حجن " سے بچنے کے لیئے گلی کی دوسری جانب سے داخل ہوا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی پتہ چلا کہ آج صبح کوئی بچہ " مائی حجن " سے سو روپے لے کر گیا تھا ۔ اور واپس نہیں آیا ۔ مائی حجن نے گلی کے سارے بچوں کو اپنے گھر بلایا تھا ۔ سو اب مجھے بھی " مائی حجن " کے ہاں جانا تھا ۔ یہ جان کر ڈر سے پسینے چھوٹنے لگے مگر جانا تو تھا ہی کہ " مائی حجن " بہت مان سمان والی ہمدرد سارے محلے کی " جگت ماں " خاتون تھیں ۔
باجی اور میں مائی حجن کے گھر گئے ۔ مائی نے مجھے دیکھا اور اپنے پاس بلایا میری تو جان ہی نکل گئی کہ آج پھر گھر والے " الٹا لٹکائیں ہی لٹکائیں "
مائی حجن نے مجھے غور سے دیکھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگیں کہ یہ تو بہت پیارا بہت اچھا بچہ ہے ۔ اسی کے دھوکے میں اس بچے کو میں نے پیسے دے دیئے ۔ میں معصوم مسکین صورت بنا انہیں دیکھتا رہا ۔ اتنے میں اک اور بچہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ۔ مائی حجن نے اسے غور سے دیکھا اور کہنے لگیں کہ " یہ تو وہی لگے ہے " اس بچے کی ماں نے اپنی جوتی اتار وہیں بچے کی سینکائی شروع کر دی ۔ بچہ بیچارہ مار کھائے روتا جائے قسمیں اٹھائے اور کہے کہ میں نے مائی حجن سے پیسے نہیں لیئے ۔ لیکن کون سنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مائی حجن نے مجرم پہچان لیا تھا ۔ اب وہ بچہ مرغا بنا ہوا تھا ۔ اور اس کی ماں اس سے تفتیش کر رہی تھی ۔ اور پھر یہ کہہ کر ساتھ لے گئی کہ اس کے ابو کو بتاتی ہوں وہ ہی اس کا علاج کریں گے ۔۔۔
اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ " چوری میں نے کی ۔ مزے میں نے کیئے ، اور مار یہ بیچارہ کھا رہا ہے ۔ " اب کیا کروں ۔ ؟
سارا دن کی آوارگی میں صرف اٹھارہ بیس روپیئ ہی خرچ ہوئے تھے ۔ باقی سب میں نے اک سیفٹی پن کے ذریعے اپنی شلوار کے اندر ٹانگے ہوئے تھے ۔ اس بچے کی حالت دیکھ مجھ سے رہا نہیں گیا ۔سوچا ماں نے اتنا مارا ہے تو گھر جا کر اس کو کتنی مار پڑے گی ؟
جانے کون سا جذبہ تھا کہ میں نے چھپ کر پیسے نکالے اور جیسے ہی مائی حجن کو اکیلا دیکھا ۔ پیسے ان کے سامنے رکھ کر اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔
مائی حجن نے مجھے تعجب سے دیکھا ۔ اور مجھے وہیں باورچی خانے میں بند کر اس بچے کے گھر چل دیں ۔ اور اس کے گھر جا کر بچے کو پیار کرتے اپنی غلطی کا اقرار کرتے بچے کو بے قصور سزا ملنے پر اس کے والدین سے معافی مانگی اور بچے کو 20 روپئے نقد سے نوازتے کہا کہ جو پیسے لے گیا تھا وہ کوئی اور تھا اور پیسے واپس دے گیا ہے ۔
واپس آکر مجھے باورچی خانے کی قید سے آزاد کر کے اپنے سامنے بٹھا لیا ۔ اور پوچھنے لگیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا ۔ کس وجہ سے اپنے جرم کو تسلیم کیا ۔ ؟
میں کیا جواب دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
چپ چاپ ان کی نصیحتیں سنتا رہا ۔ اور جب تک وہ حیات رہیں انہیں ٹھگتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ ۔۔۔۔۔ میں نے اس واقعے میں زندگی سے کیا سیکھا ۔۔۔۔۔۔۔؟
 
Top