صوفی تبسم

  1. فرخ منظور

    تبسم ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں ، صوفی تبسم

    ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں محبت کے ہم زیر و بم دیکھتے ہیں بہت سن چکے نعرۂ لن ترانی اٹھا دو یہ پردہ کہ ہم دیکھتے ہیں جبیں کو میّسر کہاں سجدہ ریزی ابھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں ان الجھی ہوئی رہگزاروں میں بھی ہم تری زلف کے پیچ و خم دیکھتے ہیں مقاماتِ دیر و حرم سے گزر کر تماشائے دیر و حرم...
  2. فرخ منظور

    تبسم عشق بے تاب آرزو ہے ابھی ۔ صوفی تبسّم

    عشق بے تاب آرزو ہے ابھی جانے کس شے کی جستجو ہے ابھی سی لیا چاکِ جیبِ داماں کو چاکِ دل تشنۂ رفو ہے ابھی ہر نفس ایک داستان کہہ دی ہر نفس حرفِ آرزو ہے ابھی یوں نہ ٹھکراؤ درد مندوں کو دہر میں غم کی آبرو ہے ابھی تجھ سے مل کر بھی میری جانِ وفا تجھ سے ملنے کی آرزو ہے ابھی نقش تھے جتنے ہو گئے اوجھل...
  3. فرخ منظور

    تبسم رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات ۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

    رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات رنگینیِ جمال ہے حسنِ نظر کی بات کیا کیا فسانہ ہائے تمنّا ہوئے دراز کیا کیا بڑھی ہے زندگیِ مختصر کی بات صبحِ شبِ وصال ہو یا شامِ انتظار آخر وہی ہے گردشِ شام و سحر کی بات سایوں میں سو گئے ہیں شبستان کے خیال اِک خواب سی ہے جلوہ گہِ بام و در کی بات رہ رہ کے...
  4. پردیسی

    غلام علی میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں۔۔۔۔آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا

    میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں ۔۔۔۔۔ آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا اینوں لڑن بہانڑے لبھناایں ۔۔۔۔۔۔کی تو سوچناایں سِتمگار آ جا بھانویں ہجرتے بھانویں وصال ہووئے ۔۔۔۔ وکھووکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں میرے سوہنئیا جا ہزار واری ۔۔۔۔۔آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا ایہہ رواج مسجداں مندراں دا ۔۔۔۔۔ اوتھے ہستیاں...
  5. فرخ منظور

    تبسم تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ۔ صوفی تبّم

    تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقی جو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی اس مئے ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میں جلوہ افروز تری چینِ جبیں ہے ساقی ابھی باقی ہے الَم ہائے فراواں کا خمار ابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقی...
  6. فرخ منظور

    تبسم حسن مجبورِ جفا ہے شاید ۔ صوفی تبسّم

    حسن مجبورِ جفا ہے شاید یہ بھی اِک طرزِ ادا ہے شاید ایک غم ناک سی آتی ہے صدا کوئی دل ٹوٹ رہا ہے شاید خود فراموش ہوا جاتا ہوں تو مجھے بھول گیا ہے شاید ان حسیں چاند ستاروں میں کہیں تیرا نقشِ کفِ پا ہے شاید ایک دنیا سے ہوئے بیگانے تجھ سے ملنے کا صلا ہے شاید ہر گھڑی اشک فشاں ہیں آنکھیں یہی...
  7. فرخ منظور

    تبسم نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا ۔ صوفی تبسّم

    نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا اس چمن کی دنیا میں ، ہے کلی کلی تنہا رات دن کے ہنگامے ، ایک مہیب تنہائی صبحِ زیست بھی تنہا ، شامِ زیست بھی تنہا کون کس کا غم کھائے ، کون کس کو بہلائے تیری بے کسی تنہا ، میری بے بسی تنہا دیکھیے تو ہوتے ہیں سارے ہم قدم رہرو کاٹیے تو کٹتی ہے راہِ زندگی تنہا...
  8. فرخ منظور

    تبسم وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب ۔ صوفی تبسّم

    وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب جو اس جگہ بھی نہ تُو مل سکے تو میرے نصیب فغانِ حق و صداقت کا مرحلہ ہے عجیب دبے تو بند و سلاسل اُٹھے تو دار و صلیب ترے خیال کا مسکن چمن چمن کا سفر مری وفا کا نشیمن فقط دیارِ حبیب نظر سے بچ کے ملے ہیں وہ بارہا مجھ سے ہزار بار ہوا ہے یہ دل نظر کا رقیب الجھ...
  9. فرخ منظور

    تبسم صبحِ وطن ہے شامِ غریباں ترے بغیر ۔ صوفی تبسّم

    صبحِ وطن ہے شامِ غریباں ترے بغیر دنیا ہے کس قدر مری ویراں ترے بغیر وہ درد جس سے دہر میں آسودگی ملی وہ درد بن گیا غمِ دوراں ترے بغیر رونا پڑا ہے حوصلۂ دید پر مجھے دیکھی ہے میں نے صبحِ بہاراں ترے بغیر پہلے ہر ایک خوابِ پریشاں تھا زندگی اب زندگی ہے خوابِ پریشاں ترے بغیر...
  10. فرخ منظور

    تبسم جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں ۔ صوفی تبسّم

    جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں ہم ہوئے کس سے جدا یاد نہیں ایک شعلہ سا اُٹھا تھا دل میں جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں ایک نغمہ سا سنا تھا میں نے کون تھا شعلہ نوا یاد نہیں روز دہراتے تھے افسانۂ دل کس طرح بھول گیا یاد نہیں اک فقط یاد ہے جانا اُن کا اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں تو مری جانِ تمنّا...
  11. فرخ منظور

    تبسم سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو ۔ صوفی تبسّم

    سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو گزر گئی ہے شبِ غم، سحر کی بات کرو دلوں کا ذکر ہی کیا ہے، ملیں، ملیں، نہ ملیں نظر ملاؤ، نظر سے نظر کی بات کرو شگفتہ ہو نہ سکے گی فضائے ارض و سما کسی کی جلوہ گہِ بام و در کی بات کرو حریمِ ناز کی خلوت میں دسترس ہے کسے نظارہ ہائے سرِ رہ گزر کی بات کرو بدل نہ...
  12. فرخ منظور

    تبسم جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے ۔ صوفی تبسّم

    جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے درد کے عنواں بدل کر رہ گئے کتنی فریادیں لبوں پر رُک گئیں کتنے اشک، آہوں میں ڈھل کر رہ گئے رخ بدل جاتا مری تقدیر کا آپ ہی تیور بدل کر رہ گئے کھُل کے رونے کی تمنّا تھی ہمیں ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے زندگی بھر ساتھ دینا تھا جنہیں دو قدم ہمراہ چل کر رہ گئے تیرے...
  13. فرخ منظور

    تبسم فسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے ۔ صوفی تبسّم

    افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے میں جتنا ان کی یاد بھلاتا...
  14. فرخ منظور

    تبسم تمناؤں کی دنیا جگمگائی ۔ صوفی تبسّم

    تمناؤں کی دنیا جگمگائی یہ کس رنگیں ادا کی یاد آئی نگاہِ شوق کو رسوا کرے گی تری جلووں کی شانِ خود نمائی وہ طوفانِ ہوس تھا آرزو کا کہ ناموسِ محبت ڈگمگائی محبت کی خموشی بھی فسانہ محبت کی فغاں بھی خوش نوائی محبّت کا وہ سنگِ آستاں ہے لرزتی ہے جبینِ پارسائی ہنسی کیا آئی ان نازک لبوں پر...
  15. فرخ منظور

    تبسم رسمِ مہر و وفا کی بات کریں ۔ صوفی تبسّم

    رسمِ مہر و وفا کی بات کریں پھر کسی دل ربا کی بات کریں سخت بیگانۂ حیات ہے دل آؤ اس آشنا کی بات کریں زلف و رُخسار کے تصوّر میں حسن و ناز و ادا کی بات کریں گیسوؤں کے فسانے دہرائیں اپنے بختِ رسا کی بات کریں مدّعائے وفا کسے معلوم دلِ بے مدّعا کی بات کریں کشتیِ دل کا ناخدا دل ہے کیوں کسی...
  16. فرخ منظور

    تبسم کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر ۔ صوفی تبسّم

    کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر چھوڑ دام و درم کی بات نہ کر دیکھ کیا کر رہے ہیں اہلِ زمیں آسماں کے ستم کی بات نہ کر اپنی آہ و فغاں کے سوز کو دیکھ ساز کے زیر و بم کی بات نہ کر یوں بھی طوفانِ غم ہزاروں ہیں عشق کی چشمِ نم کی بات نہ کر سخت الجھی ہیں زیست کی راہیں زلف کے پیچ و خم کی بات نہ کر...
  17. فرخ منظور

    تبسم سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم ۔ صوفی تبسّم

    سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم اے غمِ دوست ایک نگاہِ کرم کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بزم کی بزم ہو گئی برہم عشق نے یوں کہا افسانۂ درد حسن کی آنکھ بھی ہوئی پرنم نہ جھکے گا یہ سر کسی در پر مجھ کو تیرے ہی آستاں کی قسم اپنی ناکام آرزوؤں کو کس تمنّا سے دیکھتے ہیں ہم کیسی کیسی خزاں سے گزرے ہیں خوب...
  18. فرخ منظور

    تبسم شجر شجر نگراں ہے کلی کلی بیدار ۔ صوفی تبسّم

    شجر شجر نگراں ہے کلی کلی بیدار نہ جانے کس کی نگاہوں کو ڈھونڈتی ہے بہار کبھی فغاں بھی نشاط و طرب کا افسانہ کبھی ہنسی بھی تڑپتے ہوئے دلوں کی پکار نہ جانے کس کے نشانِ قدم سے ہیں محروم کہ ایک عمر سے سونے پڑے ہیں راہگزار عجیب حال ہے بےتابیِ محبّت کا شبِ وصال کی راحت میں ڈھونڈتی ہے قرار یہ...
  19. فرخ منظور

    تبسم روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی ۔ صوفی تبسّم

    روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی بہار منتظرِ نوبہار ہے ساقی حوادثات سے ٹکرا نہ جائے سازِ حیات غمِ جہاں سے غمِ دل دو چار ہے ساقی سحر فسردہ ہے، شام اداس اداس عجیب گردشِ لیل و نہار ہے ساقی ٹھہر گئے ہیں کہاں قافلے محبت کے ہر ایک راہ گذر سوگوار ہے ساقی دبی دبی سی ہے کچھ اس طرح سے جانِ حزیں تری...
  20. فرخ منظور

    تبسم اِس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی ۔ صوفی تبسّم

    اِس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی دو روز کی محفل ہے اِک عمر کی تنہائی پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں جس سمت نظر اٹھّی آواز تری آئی اِک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ اِک گوشۂ خلوت میں یہ دشت کی پہنائی اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی افسونِ...
Top