سراج الدین ظفر

  1. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں ۔ سراج الدین ظفر

    موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں پیچ اے زلفِ سیہ فام ابھی باقی ہیں اک سبو اور کہ لوحِ دلِ مے نوشاں پر کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں ٹھہر اے بادِ سحر اس گلِ نورستہ کے نام اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں کم...
  2. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر حاِصل ہو کسی کو نگہِ عُقدہ کُشا بھی ۔ سراج الدین ظفر

    حاِصل ہو کسی کو نگہِ عُقدہ کُشا بھی کھُلنے کو تو کھُل جائے تِرا بندِ قبا بھی برہم مِری رِندی سے قدر بھی ہے قضا بھی اب ان میں اضافہ ہے تِری زُلف ِ دوتا بھی اِک عشق ہے آزاد سزا اور جزا سے ہر اِک کیلئے ورنہ سزا بھی ہے جزا بھی تا دیر تِری زُلف ِ سمن بُو رہی موُضوع کل خلوت ِ مے خانہ میں ہم بھی تھے...
  3. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر گردشِ شام و سحر سے ہیں قدح خوار بَری ۔ سراج الدین ظفر

    گردشِ شام و سحر سے ہیں قدح خوار بَری بَھر نہ اے موسمِ گُل اِن سے دَمِ ہم سفری ہو کے میخانے سے گُزری جو نسیمِ سحری مے گُساروں میں اُٹھا ولولۂ ہم سفری شب کو کیا شے تھی سبُو میں کہ سحر کے ہنگام چشمِ مَے خوار میں ہے نُورِ فراست نظری بات اُس زُلف کی کرتا ہُوں تو کُھل جاتے ہیں مَیرے الفاظ میں...
  4. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر وہ رند ہوں کہ فنا ہے مری بقا کی طرح ۔ سراج الدین ظفر

    وُہ رِند ہُوں کہ فنا ہے مِری بقا کی طرح ابد کے دوش پہ ہُوں پیرِ تسمہ پا کی طرح فریبِ معنی و صُورت ہے یہ جہانِ خراب سبُو اُٹھا کہ خُدا بھی نہیں خُدا کی طرح غزالِ شہر کو دعوائے رم تو تھا ، لیکن کھڑے تھے ہم بھی سرِ رہ گُزر قضا کی طرح حریمِ ناز میں تھی تیزیِ نفَس بھی گراں معاملہ کِسی گُل رُخ سے...
  5. ڈاکٹرعامر شہزاد

    سراج الدین ظفر مجھ کو شراب دے انہیں آب حیات دے (سراج الدین ظفر )

    یا رب سراب اہل ہوس سے نجات دے مجھ کو شراب دے انہیں آب حیات دے آ ہم بھی رقص شوق کریں رقص مل کے ساتھ اے گردش زماں میرے ہاتھوں میں ہات دے اپناسبو بھی آئنہ جم سے کم نہیں رکھیں جو رو بہ رو خبر شش جہات دے اے دست راز مرکب دوراں ہے سست رو لا میرے ہاتھ میں رسن کائنات دے کچھ تو کھلے کہ کیا ہے پس...
  6. ادب دوست

    سراج الدین ظفر شوق اپنا قیامت سے ہم آہنگ بھی دیکھا ::: سراج الدین ظفرظفر

    شوق اپنا قیامت سے ہم آہنگ بھی دیکھا پھر ایک نظر وہ دہنِ تنگ بھی دیکھا کچھ زہد کا آیا نہ نظر مقصد و مفہوم میخوار نے تو دفترِ فرہنگ بھی دیکھا نیرنگیءِ پوشاکِ بتاں پر بھی نظر کی کچھ اور پسِ پردہء نیرنگ بھی دیکھا دیکھا ہے ترے نقشِ حقیقت کو وہاں بھی خود پائے حقیقت کو جہاں لنگ بھی دیکھا تولا جو...
  7. چوہدری لیاقت علی

    سراج الدین ظفر سراج الدین ظفر

    نام سراج الدین اور تخلص ظفر تھا۔۲۵؍مارچ ۱۹۱۲ء کو جہلم میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں میٹرک اور ۱۹۳۰ء میں ایف سی کالج لاہور سے ایف اے کیا۔ پھر کالج کی تعلیم چھوڑ کرہوابازی کی تعلیم شروع کی اور دہلی فلائنگ کلب سے ہوابازی کا اے کلاس لائسنس حاصل کیا۔ والد کے ناگہانی انتقال کے وجہ سے یہ سلسلہ منقطع کرنا...
  8. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر بغیر ساغر و یارِ جواں نہیں گزرے ۔ سراج الدین ظفرؔ

    بغیر ساغر و یارِ جواں نہیں گزرے ہماری عمر کے دن رائیگاں نہیں گزرے ہجومِ گل میں رہے ہم ہزار دست دراز صبا نفس تھے، کسی پر گراں نہیں گزرے نمود ان کی بھی دورِ سبو میں تھی کل رات ابھی جو دور، تہِ آسماں نہیں گزرے نقوشِ پا سے ہمارے اگے ہیں لالہ و گُل رہِ بہار سے ہم بے نشاں نہیں گزرے غلط ہے ہم نفسو...
  9. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر اٹھو زمانے کے آشوب کا ازالہ کریں ۔ سراج الدین ظفرؔ

    اٹھو زمانے کے آشوب کا ازالہ کریں بنامِ گُل بدناں، رُخ سوئے پیالہ کریں بیادِ دیدۂ مخمور پر پیالہ کریں اٹھو کہ زہر کا پھر زہر سے ازالہ کریں وہ رند ہیں نہ اٹھائیں بہار کا احساں ورود ہم تری خلوت میں بے حوالہ کریں کہاں کے دیَر و حرم، آؤ ایک سجدۂ شوق بہ پائے ہوش ربایانِ بست سالہ کریں برس پڑے جو...
  10. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر شوق راتوں کو ہے در پے کہ تپاں ہو جاؤں۔ سراج الدین ظفرؔ

    شوق راتوں کو ہے در پے کہ تپاں ہو جاؤں رقصِ وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں ساتھ اگر بادِ سحر دے تو پسِ محملِ یار اک بھٹکتی ہوئی آوازِ فغاں ہو جاؤں اب یہ احساس کا عالم ہے کہ شاید کسی رات نفسِ سرد سے بھی شعلہ بہ جاں ہو جاؤں لا صراحی کہ کروں وہم و گماں غرقِ شراب اس سے پہلے کہ میں خود وہم و گماں...
  11. ادب دوست

    سراج الدین ظفر رندانہ مراسم بُتِ چالاک سے رکھّو || غزل || سراج الدین ظفر

    رندانہ مراسم بُتِ چالاک سے رکھّو امّیدِ کَرم پھر شہِ لَولاک سے رکھّو ہر صبح کو اسمائے بتاں کی پڑھو تسبیح پاک اپنے دہن کو اسی مسواک سے رکھّو اے ہم نَفَسو، ولولہء شوق نہ ہو سرد ہاں گرم اسے خونِ رگِ تاک سے رکھّو راتوں کو جُھکا دو درِ جاناں پہ سر اپنا اور صبح کو اُنچا اِسے افلاک سے رکھّو جِھجکو...
  12. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر اے اہلِ نظر، سوز ہمیں، ساز ہمیں ہیں ۔ سراج الدین ظفر

    اے اہلِ نظر، سوز ہمیں، ساز ہمیں ہیں عالم میں پسِ پردہِ ہر راز ہمیں ہیں منسوب ہمیں سے ہیں گُل و مُل کی روایات جو شوق بھی ہو، نقطہِ آغاز ہمیں ہیں اے شاہدِ کونین اٹھا پردہِ اسرار اب خلوتیانِ حرمِ ناز ہمیں ہیں اے جبرِ مشیّت، بہمہ بے پروبالی اب بھی ہے جنھیں ہمتِ پرواز ،ہمیں ہیں مے خوار سہی ہم،...
  13. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر آیا ہے وقتِ خاص پھر اہل ِ نیاز پر ۔ سراج الدین ظفر

    آیا ہے وقت ِ خاص پھر اہل ِ نیاز پر پہرے بٹھاو جلوہ فروشان ِ ناز پر سمجھیں گے مہ وشوں کو حقیقت پسند کیا؟ آو مری طرف، کہ سند ہوں مجاز پر بزم ِ قدح وہ عالم ِ اسباب ہے جہاں کرتے ہیں غزنوی کو مقرّر ایاز پر کل رات محو ِ سنبُل و ریحاں تھی جب بہار میرا بھی تھا کرم کسی زُلف ِ دراز پر ہم پر کشود ِ...
  14. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر فرشِ گُل بچھوائیں، رنگ و بُو کی ارزانی کریں ۔ سراج الدین ظفر

    فرشِ گُل بچھوائیں، رنگ و بُو کی ارزانی کریں آو بلقیسانِ دوراں سے سلیمانی کریں پھر پریشاں ہو کوئی زلفِ سمن بُو، اور ہم رات بھر تحقیقِ اسبابِ پریشانی کریں واعظانِ شہر ہیں سب آدمیّت کے مزار لا صراحی، ان مزاروں پر گُل افشانی کریں ہم سا رند ِ با کرامت کیا کوئی ہوگا، کہ ہم دن کو درویشی کریں،...
  15. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر ساغر اُٹھا کے زُہد کو رد ہم نے کر دیا ۔ سراج الدین ظفرؔ

    ساغر اُٹھا کے زُہد کو رد ہم نے کر دیا پھر زندگی کے جزر کو مد ہم نے کر دیا وقت اپنا زرخرید تھا، ہنگام ِ مے کشی لمحے کو طُول دے کے ابد ہم نے کر دیا مے خانے سے چلی جو کبھی روٹھ کر بہار آگے سُبو کو صورت ِ سد ہم نے کر دیا دل پند ِ واعظاں سے ہُوا ہے اثر پذیر اس کو خراب ِ صحبت ِ بد ہم نے کر دیا...
  16. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے ۔ سراج الدین ظفرؔ

    ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے میزان ِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک آئینے قُمریوں کی طرح بولتے رہے کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سُبو رہا اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف جیسے کسی کا بندِ قبا کھولتے رہے ہر شب شبِ سیاہ تھی لیکن...
  17. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر اصلاحِ اہلِ ہوش کا یارا نہیں ہمیں ۔ سراج الدین ظفرؔ

    اصلاحِ اہلِ ہوش کا یارا نہیں ہمیں اس قوم پر خدا نے اتارا نہیں ہمیں ہم مے گسار بھی تھے سراپا سخا و جود لیکن کبھی کسی نے پکارا نہیں ہمیں دل کے معاملات میں کیا دوسروں کو دخل تائیدِ ایزدی بھی گوارا نہیں ہمیں رندِ قدح گسار بھی ہیں، بت پرست بھی قدرت نے کس ہنر سے سنوارا نہیں ہمیں گم صم ہے کس خیال...
  18. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر ہم آہوان ِ شب کا بھرم کھولتے رہے ۔ سراج الدین ظفر

    ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے میزان ِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک آئینے قُمریوں کی طرح بولتے رہے کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سُبو رہا اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف جیسے کسی کا بندِ قبا کھولتے رہے ہر شب شبِ سیاہ تھی...
Top