سراج الدین ظفر آیا ہے وقتِ خاص پھر اہل ِ نیاز پر ۔ سراج الدین ظفر

فرخ منظور

لائبریرین
آیا ہے وقت ِ خاص پھر اہل ِ نیاز پر
پہرے بٹھاو جلوہ فروشان ِ ناز پر

سمجھیں گے مہ وشوں کو حقیقت پسند کیا؟
آو مری طرف، کہ سند ہوں مجاز پر

بزم ِ قدح وہ عالم ِ اسباب ہے جہاں
کرتے ہیں غزنوی کو مقرّر ایاز پر

کل رات محو ِ سنبُل و ریحاں تھی جب بہار
میرا بھی تھا کرم کسی زُلف ِ دراز پر

ہم پر کشود ِ زُلف ِ بُتاں سے کُھلے وہ راز
کُھلتے نہ تھے جو گوشہ نشینان ِ راز پر

یوں زندگی پہ میری نظر ہے، کہ جس طرح
اک جسم ِ مرمریں کے نشیب و فراز پر

وہ میں تھا، مہ وشوں سے سلامت گزر گیا
یہ تجربہ کرو نہ کسی پاک باز پر

دنیا میں کوئی زُہد سی بے وزن شئے نہیں
رکھ دیکھیئے ترازوئے سوز و گداز پر

روکا کبھی جو نالہ ءِ بے اختیار ِ شوق
ناگاہ ضرب ِ راز پڑی دل کے ساز پر

کھینچو کچھ اس طریق سے اے مغبچو شراب
لے آو کھینچ کر اِسے سطح ِ جواز پر

آئے جو مدرسے میں قبا اُس کی زیر ِ بحث
سب راز آشکار ہوں جُویان ِ راز پر

کیا خوب کی ہے شوق نے خدمت مرے سُپرد
مامُور ہوں مساحت ِ زُلف ِ دراز پر

آئے فنا کا ذکر، تو گردش میں لا کے جام
پھینکو کمند خضر کی عُمر ِ دراز پر

دیکھے ہیں ماورائے حقیقت کے ہم نے خواب
سر رکھ کے آستانہ ءِ حُسن ِ مجاز پر

دنیا نہیں ہے بیش ِ دو سہ سجدہ ہائے شوق
پابندیاں نہ ہوں جو طریق ِ نماز پر

آدم کے بُغض و شر سے جو ہوجائے رُو شناس
ابلیس خود بضد ہو سجود ِ نیاز پر

مہ وش ہیں رقص میں ظفر اُٹھو، غزل کہو
بانہوں کے لوچ اور بدن کے گداز پر

(سراج الدین ظفر)
 
Top