سراج الدین ظفر وہ رند ہوں کہ فنا ہے مری بقا کی طرح ۔ سراج الدین ظفر

فرخ منظور

لائبریرین
وُہ رِند ہُوں کہ فنا ہے مِری بقا کی طرح
ابد کے دوش پہ ہُوں پیرِ تسمہ پا کی طرح

فریبِ معنی و صُورت ہے یہ جہانِ خراب
سبُو اُٹھا کہ خُدا بھی نہیں خُدا کی طرح

غزالِ شہر کو دعوائے رم تو تھا ، لیکن
کھڑے تھے ہم بھی سرِ رہ گُزر قضا کی طرح

حریمِ ناز میں تھی تیزیِ نفَس بھی گراں
معاملہ کِسی گُل رُخ سے تھا صبا کی طرح

صفائے سینہ و رُخسار کی زیارت کا
ہمیں بھی شوق تھا یارانِ باصفا کی طرح

شعُورِ ذات کہاں تک کہ ہر زماں ہُوں دِگر
سیاستِ نگہِ چشمِ سُرمہ سا کی طرح

نہ جانے شب کو ہمارے سبُو میں کیا شے تھی
سحر کو رُوح سُبک سیر تھی ہَوا کی طرح

مِری طریقتِ رِندی سمجھ سکا نہ کوئی
طریقِ زُہد یہاں عام تھا َوبا کی طرح

یہ نُورِ عالمِ اسرار تَو نہیں ہے کہِیں
ہمارے جام میں کچھ شے ہے سیمِیا کی طرح

ہم ایسی بزم میں کل صُبح تک رہے کہ جہاں
سکُوت بھی تھا لبِ زمزمہ سرا کی طرح

دراز دست کہاں ہیں کہ راہِ عُمر میں بھی
ہزار خم ہیں خمِ گیسُوئے دوتا کی طرح

نظر جو چہرۂ تحقیق پر کریں مے خوار
نقابِ راز بھی اُترے تِری قبا کی طرح

نہ رِند کوئی ظفرؔ کی طرح تھا رندِ خراب
نہ پارسا کوئی اِس مردِ پارسا کی طرح

(سراج الدین ظفرؔ)
 
Top