میر انیس

  1. سیما علی

    انیس مہر سپہر عز و شرافت ہے فاطمہؓ

    مہر سپہر عز و شرافت ہے فاطمہؓ شرح کتاب عصمت و عفت ہے فاطمہ ؓ مفتاح باب گلشن جنت ہے فاطمہؓ نورِ خدا و آیۂ رحمت ہے فاطمہؓ رتبے میں وہ زنان دو عالم کا فخر ہے حوّا کا افتخار ہے ، مریم کا فخر ہے جز اک ردائے کہنہ نہ تھی دوسری ردا اس میں بھی لیف خرمہ کے پیوند جا بجا بستر سے تھا کبھی نہ تنِ پاک آشنا...
  2. منہاج علی

    اہلِ دنیا کی دو رنگی ( کلامِ میر انیس)

    اہلِ دنیا کی دو رنگی یوں ہاتھ نہ تھامیں جو گرے بندۂ معبود تابوت کو دینا ہو جو کاندھا تو ہیں موجود یوں جانتے ہیں قرضِ حَسَن دینے کو بے سُود زر صرف ہو میّت کے جو ماتم میں تو خوشنود یوں بھول کے بھی ذکر نہیں کرتے ہیں اُس کا مرجاتا ہے جب کوئی تو دم بھرتے ہیں اُس کا میر انیسؔ
  3. منہاج علی

    (میر انیسؔ) رموزِ شاعری

    ہے کجی عیب مگر حُسن ہے ابرو کے لیے تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے سُرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے زیب ہے خالِ سیہ چہرۂ گُل رُو کے لیے داند آں کس کہ فصاحت بہ کلامے دارد ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد میر انیسؔ از مرثیہ’’ نمکِ خوانِ تکلّم ہے فصاحت میری‘‘
  4. منہاج علی

    میر انیسؔ کا ایک حیرت انگیز بند

    میر انیسؔ کا ایک حیرت انگیز بند ملاحظہ کیجیے۔ جس میں ’’دار‘‘ کی آواز ۹ بار ہے۔ عمر ابنِ سعد نے جب حضرتِ حرؑ کی زبان سے امام حسینؑ کی مدحت سنی تو انھیں ڈرایا اور کہا کہ یزید تجھے دار پر کھینچے گا۔ اس کے جواب میں حضرتِ حرؑ فرماتے ہیں۔ دولتِ حاکمِ دُوں پر ہے تِرا دار و مدار دارِ دنیا سے تعلّق...
  5. منہاج علی

    انیس مدحتِ حضرتِ عباس علیہ السلام

    سیافِ غزا، سروِ وغا، صفدر و جرّار ساونت، اُولوالعزم، جواں مرد و وفادار ذرّیتِ محبوبِ الٰہی کا مددگار لڑنے میں کبھی شہؑ کی سِپر اور کبھی تلوار شہرہ ہو نہ کیوں بازوئے شاہِؑ شہدا کا فرزندِ زبردست ہے وہ شیرِ خدا کا اللہ رے سروِ چمنِ فاطمہؑ کا پیار قمری کی طرح عشق کا دم بھرتے تھے ہر بار گردن کو...
  6. منہاج علی

    انیس حُسنِ علی اکبرؑ کی مدحت

    تیغ و ترُنج اگر ہوں ہلال اور آفتاب سرکاؤں چہرۂ علی اکبرؑ سے پھر نقاب حوریں گلوں کو کاٹ کے تڑپیں، رہے نہ تاب گر دیکھتِیں وہ حُسنِ ملیح اور وہ شباب پریاں اُنؑ کے سائے کا پیچھا نہ چھوڑتِیں دامن کبھی جنابِ زلیخا نہ چھوڑتِیں (خدائے سخن میر انیسؔ) لغت: ترنج= لیموں
  7. منہاج علی

    مرزا غالب کی وفات پر میر انیسؔ کی رباعی

    گلزارِ جہاں سے باغِ جنّت میں گئے مرحوم ہوئے جوارِ رحمت میں گئے مدّاحِ علیؑ کا رتبہ اعلیٰ ہے غالبؔ ’اسدُاللہ (ع)‘‘ کی خدمت میں گئے
  8. حسان خان

    شاہنامۂ فردوسی کی روشنی میں میر انیس کے ایک مصرعے کی تشریح

    میر انیس کا یہ بند دیکھیے، جس میں وہ عون و محمد کی سِتائش کر رہے ہیں، اور پھر اِس کے مصرعِ سوم پر توجُّہ مرکوز کیجیے: اللہ اللہ اسدِ حق کے نواسوں کا جلال چاند سے چہروں پہ بل کھائے ہوئے زُلفوں کے بال نیمچے کاندھوں پہ رکّھے ہوئے، مانندِ ہلال گرچہ بچپن تھا، پہ رُستم کو سمجھتے تھے وہ زال صف سے...
  9. فرخ منظور

    نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں ۔ میر انیس

    نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا اسی کو اہلِ جہاں انقلاب سمجھے ہیں...
  10. فرخ منظور

    کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے ۔ سلام از میر ببر علی انیس

    کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے ۔ سلام از میر ببر علی انیس کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے کسی کی آس بغیر از خدا نہیں‌ رکھتے نہ روئے بیٹوں‌ کے غم میں‌ حسین، واہ رے صبر یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے کسی کو کیا ہو دلوں‌ کی شکستگی کی خبر کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے ابو تراب...
  11. کاشفی

    گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے - میر انیس

    غزل (میر انیس) گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی چلے جو راہ تو چیونٹی کو ہم بچا کے چلے مقام یوں ہوا اس کارگاہء دنیا میں کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے طلب سے عار ہے اللہ کے فقیروں کو کبھی جو...
  12. کاشفی

    انیس رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں - میر ببر علی انیس

    مرثیہ (میر ببر علی انیس) رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں جُز غمِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں کربلا پُہنچے زیارت کی ہمیں پروا ہے کیا؟ اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے سر جہاں رکھتے ہیں سب، ہم واں قدم رکھتے نہیں...
  13. الف عین

    انیس سلام۔ میر انیس

    سلام میر انیس سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو لحدمیں سوئےہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے چنا ہے...
  14. فرخ منظور

    شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نام ور کی طرح - میر انیس

    شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نام ور کی طرح جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق، سحر کی طرح ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح تمام خلق ہے خواہانِ آبرو، یارب! چھپا مجھے صدفِ قبر میں گہر...
  15. محمد وارث

    مراثیِ انیس ۔ انتخاب

    مراثیِ انیس (انتخاب) ۔
Top