مرثیہ نمبر 1
(یا رب، چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر)
(1)
یا رب، چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابرِ کرم، خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے، توّجہ کوئی دم کر
گم نام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پرتو سے نہ جائے
اقلیمِ سخن میرے قلمرو سے نہ جائے
(2)
ہر باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری
بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری
ہر نخل برو مند ہے یا حضرتِ باری
پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری
وہ گل ہوں عنایت چمنِ طبعِ نِکو کو
بلبل نے بھی سُونگھا نہ ہو جن پھولوں کی بو کو
(3)
غوّاصِ طبیعت کو عطا کر وہ لآلی
ہو جن کی جگہ تاجِ سرِ عرش پہ خالی
اک ایک لڑی نظمِ ثریّا سے ہو عالی
عالم کی نگاہوں سے گرے قطبِ شمالی
سب ہوں دُرِ یکتا نہ علاقہ ہو کسی سے
نذر ان کی یہ ہوں گے جنھیں رشتہ ہے نبی سے
(4)
بھر دے دُرِ مقصود سے اُس دُرجِ دہاں کو
دریائے معانی سے بڑھا طبعِ رواں کو
آگاہ کر اندازِ تکلّم سے زباں کو
عاشق ہو فصاحت بھی، وہ دے حُسن، بیاں کو
تحسیں کا سماوات سے غُل تا بہ سَمک ہو
ہر گوش بنے کانِ ملاحت، وہ نمَک ہو
(5)
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دُوں
قطرے کو جو دُوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرّے کی چمک مہرِ منوّر سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں
گلدستہء معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اِک پُھول کا مضموں ہو تو سَو رنگ سے باندھوں
(جاری ہے)
۔