محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)

( 128 )
جانباز نے طے کی عجب انداز سے وہ راہ
لے آئی سلیماں کو ہوا تا صفِ جنگاہ
وہ رعب، وہ شوکت وہ نہیبِ شہِ ذی جاہ
دلدل کو اڑاتے ہوئے آئے اسد اللہ

غل تھا یہ محمد ہیں کہ خالق کے ولی ہیں
اقبال پکارا کہ حسین ابنِ علی ہیں

(129)
نصرت نے صدا دی کہ مدد گارِ جہاں ہیں
صولت نے کہا تاجِ سرِ کون و مکاں ہیں
گویا ہوئی ہمّت کہ محمد کی زباں ہیں
غربت نے کہا فاقہ کش و تشنہ دہاں ہیں

سطوت یہ پکاری بخدا شیر یہی ہیں
بولی ظفر اللہ کی شمشیر یہی ہیں

(130)
عکسِ رخِ روشن جو چمکتا ہوا آیا
ذرّوں نے شہِ شرق کے پہلو کو دبایا
جنگل میں پری بن گیا ہر نخل کا سایا
کرسی سے زمیں کہتی تھی دیکھا مرا پایا

تھی چاندنی، خورشیدِ فلک شرم سے گم تھا
وہ روزِ دہم رشکِ شبِ چار دہم تھا

(131)
تنہا تھے یہ اللہ ری جلالت شہِ دیں کی
تھرّاتے تھے سب دیکھ کے صولت شہِ دیں کی
گردوں پہ مَلک تکتے تھے صورت شہِ دیں کی
غل تھا کہ یہ آخر ہے زیارت شہِ دیں کی

خود حُسن یہ کہتا تھا کہ شمعِ سحری ہوں
شبّیر کا کیا کوچ ہے میں بھی سفری ہوں

(132)
ہاں دیکھ لو تنویرِ جبینِ شہِ والا
یہ حُسن میں ہے ماہِ دو ہفتہ سے دو بالا
ہے برقِ تجلّی اِسی مہتاب کا ہالا
اندھیر ہے پر جب نہ رہا اس کا اجالا

آنکھوں سے نہاں ہوگی جو یہ نور کی صورت
ہو جائیں گی صبحیں شبِ دیجور کی صورت

(133)
گر لاکھ جلائے گا دل اپنا کوئی دل سوز
اس کعبۂ ابرو سے نہ ہوگا شمع افروز
گردش میں رہیں گے جو مہ و مہر شب و روز
دیکھیں گے یہ زلفیں نہ یہ رخسارِ دل افروز

کلیاں تو بہت باغ میں نرگس کی کِھلیں گی
ڈھونڈیں گی جو مردم کو تو آنکھیں نہ ملیں گی


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


خوبی دہن و لب کی سمجھنے میں سب حیراں
روئیں گے جو یاد آئے گا یہ سینۂ تاباں
ملنا دُر و یاقوت کا مشکل نہیں چنداں
دیکھو گے زمانے میں نہ ایسے لب و دنداں

یہ دُرّ ِ گرانمایہ صدف میں نہ ملیں گے
کیا ذکر صدف کا ہے نجف میں نہ ملیں گے


چھانے گی اگر بادِ صبا خاک چمن کی
خوشبو کہیں پائے گی نہ اس سیبِ ذقن کی
ضَو دیکھ رگِ گردنِ سردارِ زمن کی
پر تَو سے زمیں غیرتِ آئینہ ہے رَن کی

سوزِ غمِ فرقت کو نہ بیگانوں سے پوچھو
اِس شمع کے بجھ جانے کو پروانوں سے پوچھو


یہ صدر جو الہامِ الٰہی کا ہے مصدر
دل علم کا، اسلام کا گھر، شرع کا مظہر
دیں دار سمجھتے ہیں اسے مصحفِ اکبر
ہو جائے گا وقفِ تبر و نیزہ و خنجر

کاٹیں گے ہر اک جزوِ تنِ شاہِ امم کو
کُھل جائیں گے شیرازۂ قرآں کوئی دم کو


ان ہاتھوں کو اب لائیں گے مشکل میں کہاں سے
زخمی انھیں کر دیں گے لعیں تیغ و سناں سے
جاری تھی عجب خیر شہِ کون و مکاں سے
ہیہات چلا عقدہ کشا آج جہاں سے

یوں تجھ پہ نہ ان ہاتھوں کا احوال کھلے گا
مشکل کوئی پڑ جائے گی تب حال کھلے گا


لو مومنو، سن لو شہِ ذی جاہ کی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تولے ہوئے شمشیر
دیکھو، نہ مٹاؤ مجھے اے فرقۂ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر

واللہ تعلّی نہیں، یہ کلمۂ حق ہے
عالم کے مرقّع میں حُسین ایک ورق ہے


واللہ جہاں میں مرا ہمسر نہیں کوئی
محتاج ہوں پر مجھ سا تونگر نہیں کوئی
ہاں، میرے سوا شافعِ محشر نہیں کوئی
یوں سب ہیں مگر سبطِ پیمبر نہیں کوئی

باطل ہے اگر دعوٰیِ اعجاز کرے گا
کس بات پہ دنیا میں کوئی ناز کرے گا


ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا
سرداریِ فردوس کا افسر ہمیں بخشا
اقبالِ علی، خُلقِ پیمبر ہمیں بخشا
قدرت ہمیں دی، زور ہمیں، زر ہمیں بخشا

ہم نور ہیں، گھر طورِ تجلّا ہے ہمارا
تختِ بنِ داؤد مصلّا ہے ہمارا


نانا وہ کہ ہیں جن کے قدم عرش کے سرتاج
قوسین مکاں، ختمِ رسل، صاحبِ معراج
ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج
باپ ایسا، صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج

لڑنے کو اگر حیدرِ صفدر نہ نکلتے
بُت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے


کس جنگ میں سینے کو سپر کر کے نہ آئے
کس مرحلۂ صعب کو سر کر کے نہ آئے
کس فوج کی صف زیر و زبر کر کے نہ آئے
تھی کون سی شب جس کو سحر کر کے نہ آئے

تھا کون جو ایماں تہہِ صمصام نہ لایا
اس شخص کا سر لائے جو اسلام نہ لایا


اصنام بھی کچھ کم تھے نہ کفّار تھے تھوڑے
طاقت تھی کہ عزّٰی کوئی لات سے توڑے؟
بدکیشوں نے سجدے بھی کیے، ہاتھ بھی جوڑے
بے توڑے وہ بت حیدرِ صفدر نے نہ چھوڑے

کعبے کو صفا کر دیا خالق کے کرم سے
نکلے اسد اللہ اذاں دے کے حرم سے


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


ہے کون سا وہ فخر کہ زیبا نہیں ہم کو
وہ کیا ہے جو اللہ نے بخشا نہیں ہم کو
واللہ کسی چیز کی پروا نہیں ہم کو
کیا بات ہے خود خواہشِ دنیا نہیں ہم کو

غافل ہے وہ دنیا کے مزے جس نے لیے ہیں
بابا نے مِرے تین طلاق اس کو دیے ہیں


جو چاہیں جسے بخش دیں ہم ہاتھ اٹھا کے
انگلی نہیں، کنجی ہیں یہ اسرارِ خدا کے
خالی کوئی جاتا نہیں دروازے پہ آ کے
بھر دیتے ہیں فاقوں میں بھی کاسے فقرا کے

سر دیتے ہیں سائل کو جگر بندِ علی ہیں
فیّاض کے بندے ہیں، سخی ابنِ سخی ہیں


اس عہد میں مالک اُسی تلوار کے ہم ہیں
جرّار پسر حیدرِ کرّار کے ہم ہیں
فرزند، محمد سے جہاں دار کے ہم ہیں
وارث شہِ لولاک کی سرکار کے ہم ہیں

کچھ غیرِ کفن ساتھ نہیں لے کے گئے ہیں
تابوتِ سکینہ بھی ہمیں دے کے گئے ہیں


یہ فرق پہ عمّامۂ سردارِ زمن ہے
یہ تیغِ علی ہے، یہ کمر بندِ حَسن ہے
یہ جوشنِ داؤد ہے جو حافظِ تن ہے
یہ پیرہنِ یوسفِ کنعانِ محن ہے

دکھلائیں سند دستِ رسولِ عَرَبی کی
یہ مہرِ سلیماں ہے، یہ خاتم ہے نبی کی


دیکھو تو، یہ ہے کون سے جرّار کی تلوار
کس شیر کے قبضے میں ہے کرّار کی تلوار
دریا نے بھی دیکھی نہیں اس دھار کی تلوار
بجلی کی تو بجلی ہے یہ تلوار کی تلوار

قہر و غضب اللہ کا ہے، کاٹ نہیں ہے
کہتے ہیں اسے موت کا گھر، گھاٹ نہیں ہے


دم لے کہیں رک کر، وہ روانی نہیں اس میں
چلنے میں سبک تر ہے، گرانی نہیں اس میں
جز حرفِ ظفر اور نشانی نہیں اس میں
جل جاؤ گے سب، آگ ہے، پانی نہیں اس میں

چھوڑے گی نہ زندہ اسے جو دشمَنِ دیں ہے
نابیں نہیں، غصّے سے اجل چیں بہ چیں ہے


کچھ بس نہ چلے گا جو یہ خونخوار چلے گی
سر اڑنے کی آندھی دمِ پیکار چلے گی
تھم جائے گی ایک بار تو سَو بار چلے گی
اُگلے گا لہو چرخ وہ تلوار چلے گی

میداں سے کہیں بھاگ کے جانا نہ ملے گا
دم لینے کا دنیا میں ٹھکانہ نہ ملے گا


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


ہم سے کوئی اعلٰی نہیں عالی نَسَبی میں
طفلی سے حمائل رہے آغوشِ نبی میں
ہم مصحفِ ناطق ہیں زبانِ عَرَبی میں
تفسیر ہیں قرآن کی ہم تشنہ لبی میں

مخفی ہیں جو رتبے وہ عیاں ہو نہیں سکتے
خود ہم سے شرف اپنے بیاں ہو نہیں سکتے


سب قطرے ہیں، گر فیض کے دریا ہیں تو ہم ہیں
ہر نقطۂ قرآں کے شناسا ہیں تو ہم ہیں
حق جس کا ہے جامع وہ ذخیرا ہیں تو ہم ہیں
افضل ہیں تو ہم، عالم و دانا ہیں تو ہم ہیں

تعلیمِ مَلک عرش پر تھا وِرد ہمارا
جبریل سا استاد ہے شاگرد ہمارا


گر فیضِ ظہورِ شہِ لولاک نہ ہوتا
بالائے زمیں گنبدِ افلاک نہ ہوتا
کچھ خاک کے طبقے میں بجز خاک نہ ہوتا
ہم پاک نہ کرتے تو جہاں پاک نہ ہوتا

یہ شور اذاں کا سحر و شام کہاں تھا
ہم عرش پہ تھے جب تو یہ اسلام کہاں تھا


محسن سے بدی، ہے یہی احساں کا عوض واہ
دشمن کے ہوا خواہ ہوئے، دوست کے بد خواہ
گمراہ کے بہکانے سے روکو نہ مری راہ
لو، اب بھی مسافر کو نکل جانے دو لِلّہ

مل جائے گی اک دم میں اماں رنج و بلا سے
میں ذبح سے بچ جاؤں گا، تم قہرِ خدا سے


بستی میں کہیں مسکن و ماوا نہ کروں گا
یثرب میں بھی جانے کا ارادہ نہ کروں گا
صابر ہوں، کسی کا کبھی شکوہ نہ کروں گا
اِس ظلم کا میں ذکر بھی اصلا نہ کروں گا

رونا نہ چھٹے گا کہ عزیزوں سے چھٹا ہوں
جو پوچھے گا کہہ دوں گا کہ جنگل میں لٹا ہوں


اعدا نے کہا، قہرِ خدا سے نہیں ڈرتے
ناری تو ہیں، دوزخ کی جفا سے نہیں ڈرتے
فریادِ رسولِ دوسرا سے نہیں ڈرتے
خاتونِ قیامت کی بُکا سے نہیں ڈرتے

ہم لوگ، جدھر دولتِ دنیا ہے، اُدھر ہیں
اللہ سے کچھ کام نہیں، بندۂ زر ہیں


حضرت نے کہا، خیر خبردار صفوں سے
آیا غضب اللہ کا، ہشیار صفوں سے
بجلی سا گزر جاؤں گا ہر بار صفوں سے
کب پنجتنی رکتے ہیں دو چار صفوں سے

غربت کا چلن دیکھ چکے، حرب کو دیکھو
لو، بندۂ زر ہو تو مری ضرب کو دیکھو


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


ہاں گوشۂ عزلت خمِ شمشیر نے چھوڑا
واں سہم کے چلّے کو ہر اک تیر نے چھوڑا
کس قہر سے گھر موت کی تصویر نے چھوڑا
ساحل کو صفِ لشکرِ بے پیر نے چھوڑا

عنقائے ظفر، فتح کا در کھول کے نکلا
شہبازِ اجل صید کو پر تول کے نکلا


جلوہ کیا بدلی سے نکل کر مہِ نو نے
دکھلائے ہوا میں دو سر اک شمع کی لو نے
تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دو نے
تاکا سپرِ مہر کو شمشیر کی ضو نے

اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوں میں سروں کو
جبریل نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو


بالا سے جو آئی وہ بلا جانبِ پستی
بس نیست ہوئی دم میں ستم گاروں کی ہستی
چلنے لگی یکدست جو شمشیر دو دستی
معلوم ہوا لٹ گئی سب کفر کی بستی

زور ان کے ہر اک ضرب میں اللہ نے توڑے
ٹوٹیں جو صفیں، بت اسداللہ نے توڑے


کاٹے کبھی منہ سر کبھی گردن سے اڑائے
گہ دستِ قوی بازؤئے دشمن سے اڑائے
یوں روح کے طائر قفَسِ تن سے اڑائے
جس طرح پرندوں کو کوئی بَن سے اڑائے

جانبازوں کا یہ حال تھا شمشیر کے ڈر سے
جس طرح ہرن بھاگتے ہیں شیر کے ڈر سے


دم میں اثرِ قہرِ الٰہی نظر آیا
دوزخ کی طرف قافلہ راہی نظر آیا
جس صفت میں زرہ پوش سپاہی نظر آیا
چو رنگ وہیں صورتِ ماہی نظر آیا

بھاگی تھی ہوا خوف سے شمشیرِ دو دم کے
مچھلی بھی نہ لہراتی تھی دامن میں علم کے


چلنے میں عجب انداز تیغ نے نکالے
سر لے گئی گردن سے نئے ناز نکالے
طاقت تھی کہ ناوک قدر انداز نکالے
سوفار کا کیا منہ تھا جو آواز نکالے

بازو تو جفا کیشوں کے شانوں سے جدا تھے
تیروں سے کماں، تیر کمانوں سے جدا تھے


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


بجلی سی گری، جو صَفِ کفّار سے نکلی
آواز 'بزن' تیغ کی جھنکار سے نکلی
گہ ڈھال میں ڈوبی، کبھی تلوار سے نکلی
در آئی جو پیکاں میں تو سوفار سے نکلی

تھے بند خطا کاروں پہ در امن و اماں کے
چلّے بھی چھپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے


افلاک پہ چمکی کبھی، سر پر کبھی آئی
کوندی کبھی جوشن پہ، سپر پر کبھی آئی
گہ پھر گئی سینے پہ، جگر پر کبھی آئی
تڑپی کبھی پہلو پہ، کمر پر کبھی آئی

طے کر کے پھری کون سا قصّہ تھا فرس کا
باقی تھا جو کچھ کاٹ وہ حصّہ تھا فرس کا


بے پاؤں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی
ندّی اُدھر اِک خوں کی ابلتی ہوئی آئی
دم بھر میں وہ سو رنگ بدلتی ہوئی آئی
پی پی کے لہو، لعل اگلتی ہوئی آئی

ہیرا تھا بدن رنگ زمرّد سے ہرا تھا
جوہر نہ کہو، پیٹ جواہر سے بھرا تھا


زیبا تھا دمِ جنگ پری وش اسے کہنا
معشوق بنی سرخ لباس اس نے جو پہنا
اِس اوج پہ وہ سر کو جھکائے ہوئے رہنا
جوہر تھے کہ پہنے تھی دلہن پھولوں کا گہنا

سیبِ چمَنِ خُلد کی بُو باس تھی پھل میں
رہتی تھی وہ شبّیر سے دولھا کی بغل میں


سر پٹکے تو موج اِس کی روانی کو نہ پہنچے
قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہنچے
بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہنچے
خنجر کی زباں تیز زبانی کو نہ پہنچے

دوزخ کے زبانوں سے بھی آنچ اس کی بُری تھی
برچھی تھی، کٹاری تھی، سَرَدہی تھی، چُھری تھی


موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی
دم خم بھی، لگاوٹ بھی، صفائی بھی، ادا بھی
اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی، پانی بھی، ہوا بھی
امرت بھی، ہلاہل بھی، مسیحا بھی، قضا بھی

کیا صاحَبِ جوہر تھی، عجب ظرف تھا اس کا
موقع تھا جہاں جس کا وہیں صرف تھا اس کا


ہر ڈال کے پھولوں کو اڑاتا تھا پھل اس کا
تھا لشکرِ باغی میں ازل سے عمل اس کا
ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کے ہر دم اجل اس کا
تھا قلعۂ چار آئینہ گویا محل اس کا

اس در سے گئی کھول کے وہ در نکل آئی
گہ صدر میں بیٹھی، کبھی باہر نکل آئی

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


تیروں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے
جا پہنچی کماں داروں پہ بھالوں کی طرف سے
پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے
منہ تیغوں کی جانب کیا ڈھالوں کی طرف سے

بس ہوگیا دفتر نظری نام و نسب کا
لاکھوں تھے تو کیا، دیکھ لیا جائزہ سب کا


سر پر جو سپر کو کسی خود سر نے اٹھایا
نوکوں پہ اسے تیغِ دو پیکر نے اٹھایا
تلوار نے کیا دیو کو اژدر نے اٹھایا
لڑنے کا مزا خوب ستمگر نے اٹھایا

یوں پھینک دیا خاک پہ سر کاٹ کے تن سے
اگلے کوئی جس طرح نوالے کو دہن سے


ہر ہاتھ کے پرزے تھے تو ہر ڈھال کے ٹکڑے
پونہچے تھے کہ تھے قرعۂ رمّال کے ٹکڑے
کاٹے زرۂ جسمِ بد افعال کے ٹکڑے
تڑپی جو وہ مچھلی تو ہوئے جال کے ٹکڑے

مقتل کی جو سرحد سے چلی شام میں ٹھہری
کیا ماہیِ دریائے ظفر دام میں ٹھہری


جوشن پہ گئی کاٹ کے بازو نکل آئی
سینے سے بڑھی چیر کے پہلو نکل آئی
ہر زخم سے اس طرح وہ مہ رو نکل آئی
معلوم ہوا پھول سے خوشبو نکل آئی

گر پڑتی تھی بجلی جدھر آتی تھی لچک کر
کیا منہ تھا کہ مر جاتے تھے بسمل بھی پھڑک کر


پہنچی جو سپر تک تو کلائی کو نہ چھوڑا
ہر ہاتھ میں ثابت کسی گھائی کو نہ چھوڑا
شوخی کو شرارت کو لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو رُکھائی کو صفائی کو نہ چھوڑا

اعضائے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی فقرے تھے غضب کے


چڑھتی ہے یہ ندّی تو اترتی ہے بمشکل
جب باڑھ پہ آتی ہے تو ٹھہرتی ہے بمشکل
اس گھاٹ سے کشتی بھی گزرتی ہے بمشکل
دھارے میں جو ڈوبے تو ابھرتی ہے بمشکل

پانی یہ نہیں بحر ہے اس تیغ کے بَر میں
چکّر میں وہ رہتا ہے جو آ جائے بھنور میں


طوفانِ غضب آبِ دمِ شمشیر سے اٹھا
وار اس کا تبر سے نہ کسی تیر سے اٹھا
ضربت کا نہ لنگر کسی تدبیر سے اٹھا
اک موجۂ خوں لشکرِ بے پیر سے اٹھا

اللہ رے تلاطم کہ زمیں ہل گئی رن کی
ضربہ جو پڑا ڈوب گئیں کشتیاں تن کی


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


وہ نعرۂ شیرانہ وہ حملے وہ تہوّر
تھّراتے تھے ساونت لرزتے تھے بہادر
جنّات کو حیرت تھی ملائک کو تحیّر
وہ سرعتِ شبدیز کہ تھکتا تھا تصوّر

مارا اُسے دو لاکھ میں جا کر جسے تاکا
سب ٹھاٹ تھے ضرغامِ الٰہی کی وغا کا


چار آئینہ والوں کو نہ تھا جنگ کا یارا
چو رنگ تھے سینے تو کلیجہ تھا دو پارا
کہتے تھے زرہ پوش نہیں جنگ کا یارا
بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارا

جوشن کو سنا تھا کہ حفاظت کا محل ہے
اس کی نہ خبر تھی کہ یہی دامِ اجل ہے


بد کیش لڑائی کا چلن بھول گئے تھے
ناوک فگنی تیر فگن بھول گئے تھے
سب حیلہ گری عہد شکن بھول گئے تھے
بے ہوشی میں ترکش کا دہن بھول گئے تھے

معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے کہ نہیں ہے
چلاتے تھے قبضے میں کماں ہے کہ نہیں ہے


ڈر ڈر کے قِدراست سنانوں نے جھکائے
دب دب کے سر عجز کمانوں نے جھکائے
ہٹ ہٹ کے عَلم رن میں جوانوں نے جھکائے
سر، خاک پہ گر گر کے نشانوں نے جھکائے

غُل تھا کہ پناہ اب ہمیں یا شاہِ زماں دو
پھیلائے تھے دامن کہ پھریرے کو اماں دو


شہ کہتے تھے، ہے باڑھ پہ دریا، نہ رکے گا
اس موج پہ آفت کا طمانچا نہ رکے گا
بے فتح و ظفر دلبرِ زہرا نہ رکے گا
تا غرق نہ فرعون ہو، موسٰی نہ رکے گا

ہے بحرِ غضب، نام بھی قہرِ صمد اس کا
رکنے کا نہیں شام تلک جزر و مد اس کا


اس صف میں گئے بیچ میں اس غول کے نکلے
جو فوج چڑھی منہ پہ اسے رول کے نکلے
انبوہ سے یوں تیغِ دو سر تول کے نکلے
گویا درِ خیبر کو علی کھول کے نکلے

اک زلزلہ تھا نُہ فلک و ہفت طبق کو
ہر بار الٹ دیتے تھے لشکر کے ورق کو


بڑھتے تھے جو تولے ہوئے شمشیرِ دو دم کو
ہاتھوں کو ظفر چومتی تھی، فتح قدم کو
تھا خوف سے لرزہ عرب و روم و عجم کو
اک شیر نے روکا تھا چھ لاکھ اہلِ ستم کو

دنیا جو بچی روحِ محمد کا سبب تھا
شبّیر اگر رحم نہ کرتے تو غضب تھا


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


لڑتے تھے مگر غیظ سے رحمت تھی زیادہ
شفقت بھی نہ کم تھی جو شجاعت تھی زیادہ
نانا کی طرح خاطرِ امّت تھی زیادہ
بیٹوں سے غلاموں کی محبّت تھی زیادہ

تلوار نہ ماری جسے منہ موڑتے دیکھا
آنسو نکل آئے جسے دم توڑتے دیکھا


فرماتے تھے اعدا کو ترائی سے بھگا کر
کیوں چھوڑ دیا گھاٹ کو، روکو ہمیں آ کر
دعوت یونہی کرتے ہیں مسافر کو بلا کر؟
ہم چاہیں تو پانی بھی پیئں نہر میں جا کر

پر صبر کے دریا میں ہمیں پیاس نہیں ہے
اب زہر یہ پانی ہے کہ عبّاس نہیں ہے


بھولی نہیں اکبر کی ہمیں تشنہ دہانی
وہ چاند سا رخ، وہ قد و قامت، وہ جوانی
وہ سوکھے ہوئے ہونٹ، وہ اعجاز بیانی
دکھلا کے زباں مانگتے تھے نزع میں پانی

کس سے کہیں جو خونِ جگر ہم نے پیا ہے
بعد ایسے پسر کے بھی، کہیں باپ جیا ہے؟


یہ کہہ کے سکینہ کے بہشتی کو پکارے
الفت ہمیں لے آئی ہے پھر پاس تمھارے
لڑتے ہوئے آ پہنچے ہیں دریا کے کنارے
عبّاس، غش آتا ہے ہمیں پیاس کے مارے

اِن سوکھے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹوں کو ملا دو
کچھ مشک میں پانی ہو تو بھائی کو پلا دو


لیٹے ہوئے ہو ریت میں کیوں منہ کو چھپائے
اٹھو کہ سکینہ کو یہاں ہم نہیں لائے
غافل ہو، برادر تمھیں کس طرح جگائے
ہے عصر کا وقت، اے اسداللہ کے جائے

خوش ہونگا میں، آگے جو عَلم لے کے بڑھو گے
کیا بھائی کے پیچھے نہ نماز آج پڑھو گے؟


کہہ کر یہ سخن رونے لگا بھائی کو بھائی
تلوار سے مہلت ستم ایجادوں نے پائی
جس فوج نے رن چھوڑ دیا تھا وہ پھر آئی
دو روز کے پیاسے یہ، گھٹا شام کی چھائی

بارش ہوئی تیروں کی ولی ابنِ ولی پر
سب ٹوٹ پڑے ایک حسین ابنِ علی پر


کی شہ نے جو سینے پہ نظر پونچھ کے آنسو
سب چھاتی سے تھے پہلوؤں تک تیر سہ پہلو
ہر سمت سے تیغیں جو لگاتے تھے جفا جو
سالم نہ کلائی تھی، نہ شانہ تھا، نہ بازو

برگشتہ زمانہ تھا شہِ تشنہ گلُو سے
پھل برچھیوں کے سرخ تھے سیّد کے لہو سے


زخموں سے جو وہ دستِ مبارک ہوئے بیکار
ہرنے پہ دھری شاہ نے سپر، میان میں تلوار
بس کعبۂ ایماں کے قریب آ گئے کفّار
مظلوم کو تیغیں جو لگانے لگے اک بار

یوں شاہ کو گھیرے تھے پرے فوجِ ستم کے
جس طرح صف آرا تھے صنم گرد حرم کے


سجدے کی جگہ چھوڑی نہ تیروں نے جبیں پر
تقدیر نے لکھّے کئی نقش ایک نگیں پر
کثرت تھی جراحت کی رخِ قبلۂ دیں پر
ہر جا خطِ شمشیر تھی قرآنِ مبیں پر

تلواروں کے ٹکڑے تھے ہر اک جزوِ بدن پر
مجموعہ پریشان تھا، سی پارۂ تن پر


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)

حضرت کی یہ صورت تھی، فرس کا تھا یہ احوال
منہ تیغوں سے زخمی تھا بدن تیروں سے غربال
گھائل تھی جبیں، خون میں ڈوبی ہوئی تھی یال
گردن کا وہ کینڈا نہ وہ شوخی تھی نہ وہ چال

ہر سمت سے تیروں کا جو مینہ اس پہ پڑا تھا
پر کھولے ہوئے دھوپ میں طاؤس کھڑا تھا


جھک جاتے تھے ہرنے پہ جو غش میں شہِ ابرار
منہ پھیر کے آقا کی طرف تکتا تھا راہوار
چمکار کے فرماتے تھے شبیّرِ دل افگار
اب خاتمۂ جنگ ہے اے اسپِ وفادار

اتریں گے بس اب تجھ سے چھٹا ساتھ ہمارا
نہ پاؤں ترے چلتے ہیں، نہ ہاتھ ہمارا


زخمی ہے، نہیں اب تری تکلیف گوارا
گرتے ہیں سنبھلنے کا ہمیں بھی نہیں یارا
کیا بات تری، خوب دیا ساتھ ہمارا
آ پہنچا ہے منزل پہ یداللہ کا پیارا

تو جس میں پلا ہے وہ گھر اک دم میں لٹے گا
بچپن کا ہمارا ترا اب ساتھ چھٹے گا


گھیرے ہیں عدو، خیمے تلک جا نہیں سکتے
کھوئی ہے جو طاقت اسے اب پا نہیں سکتے
مشکل ہے سنبھلنا، تجھے دوڑا نہیں سکتے
پہلو ترے مجروح ہیں، ٹھکرا نہیں سکتے

حیواں کو بھی دکھ ہوتا ہے زخموں کے تعب کا
میں درد رسیدہ ہوں، مجھے درد ہے سب کا


کس طرح دکھاؤں کہ ترے زخم ہیں کاری
میں نے تو کسی دن تجھے قمچی نہیں ماری
گھوڑے نے سنی درد کی باتیں جو یہ ساری
دو ندّیاں اشکوں کی ہوئیں آنکھوں سے جاری

حیواں کو بھی رقّت ہوئی اس لطف و کرم پر
منہ رکھ دیا مڑ کر شہِ والا کے قدم پر


گردن کو ہلایا کہ مسیحا، نہ اُتریے
دم ہے ابھی مجھ میں مرے آقا، نہ اُتریے
تلواریں لیے گرد ہیں اعدا، نہ اُتریے
سب فوج چڑھی آتی ہے مولا، نہ اُتریے

اے وائے ستم صدر نشیں خاک نشیں ہو
حسرت ہے کہ مر جاؤں تو خالی مری زیں ہو


شہ نے کہا، تا چند مسافر سے مَحبّت
وہ تو نے کیا، ہوتا ہے جو حقِ رفاقت
بتلا تو سنبھلنے کی بھلا کون ہے صورت
نہ ہاتھ میں، نہ پاؤں میں نہ قلب میں طاقت

بہتر ہے کہ اتروں، نہیں تیورا کے گروں گا
پھٹ جائیں گے سب زخم جو غش کھا کے گروں گا


ہے عصر کا ہنگام، مناسب ہے اترنا
اس خاک پہ ہے شکر کا سجدہ ہمیں کرنا
گو مرحلۂ صعب ہے دنیا سے گزرنا
سجدے میں کٹے سر کہ سعادت ہے یہ مرنا

طاعت میں خدا کی نہیں صرفہ تن و سر کا
ذی حق ہیں ہمیں اس کے کہ ورثہ ہے پدر کا


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 1

(گزشتہ سے پیوستہ)


اترا یہ سخن کہہ کے وہ کونین کا والی
خاتم سے نگیں گر گیا، زیں ہو گیا خالی
اس دکھ میں نہ یاور تھے، نہ مولا کے موالی
خود ٹیک کے تلوار کو سنبھلے شہِ عالی

کپڑے تنِ پُر نور کے سب خوں میں بھرے تھے
اک ہاتھ کو راہوار کی گردن پہ دھرے تھے


منہ یال پہ رکھ رکھ کے یہ فرماتے تھے ہر بار
جا ڈیوڑھی پہ اے صاحبِ معراج کے راہوار
اب ذبح کریں گے ہمیں اک دم میں ستمگار
زینب سے یہ کہنا کہ سکینہ سے خبردار

رہنا وہیں جب تک مرا سر تن سے جدا ہو
لے جائیو بانو کو جدھر حکمِ خدا ہو


یہ کہہ کے جو سرکا اسداللہ کا جایا
اک تیر جبیں پر بنِ اشعث نے لگایا
فریاد نے زہرا کی دو عالم کو ہلایا
پیکانِ سہ پہلو عقبِ سر نکل آیا

تڑپے نہ، زہے صبر امامِ دو جہاں کا
سوفار نے بوسہ لیا سجدے کے نشاں کا


حضرت نے جبیں سے ابھی کھینچا نہ تھا وہ تیر
جو سر پہ لگی تیغِ بنِ مالکِ بے پیر
ابرو تک اتر کر جو اٹھی ظلم کی شمشیر
سر تھام کے بس بیٹھ گئے خاک پہ شبّیر

چلّائے ملک دیکھ کے خوں سبطِ نبی کا
تھا حال یہی مسجدِ کوفہ میں علی کا


بیٹھے جو سوئے قبلہ دو زانو شہِ بے پر
جھکتے تھے کبھی غش میں اٹھاتے تھے کبھی سر
تھے ذکرِ خدا میں کہ لگا تیر دہن پر
یاقوت بنے ڈوب کے خوں میں لبِ اطہر

بہہ آیا لہو تا بہ زنخدانِ مبارک
ٹھنڈے ہوئے دو گوہرِ دندانِ مبارک


نیزے کا بنِ وہب نے پہلو پہ کیا وار
کاندھے پہ چلی ساتھ زرارہ کی بھی تلوار
ناوک بنِ کامل کا کا کلیجے کے ہوا پار
بازو میں در آیا تبرِ خولیِ خونخوار

تلوار سے وقفہ نہ ملا چند نَفَس کا
دم رک گیا نیزہ جو لگا ابنِ انَس کا


تھرّا کے جکھے سجدۂ حق میں شہِ ابرار
شورِ دہلِ فتح ہوا فوج میں اک بار
خوش ہو کے پکارا پسرِ سعد جفا کار
اے خولی و شیث و بنِ ذی الجوشنِ جرّار

آخر ہے بس اب کام امامِ ازلی کا
سر کاٹ لو سب مل کے حسین ابنِ علی کا


لکھتا ہے یہ راوی کہ بپا ہو گیا محشر
بارہ ستم ایجاد بڑھے کھینچ کے خنجر
اک سیّدہ نکلی درِ خیمہ سے کھلے سر
برقع تھا، نہ مقنع تھا، نہ موزے تھے نہ چادر

چلّائے لعیں خوف سے ہاتھ آنکھوں پہ دھر کے
لو فاطمہ آتی ہے بچانے کو پسر کے


ہلتا تھا فلک، ہاتھوں سے جب پیٹتی تھی سر
بجلی کی طرح کوندتے تھے کانوں کے گوہر
فرماتی تھیں، فِضّہ جو اڑھا دیتی تھی مِعجَر
فریادی ہوں، فریادی کو زیبا نہیں چادر

سر ننگے یونہی جاؤں میں روضے پہ نبی کے
پردہ تو گیا ساتھ حسین ابنِ علی کے


اُس بھیڑ میں آ کر وہ ضعیفہ یہ پکاری
اے سبطِ نبی، ابنِ علی، عاشقِ باری
گھوڑا تو ہے کوتل، کدھر اتری ہے سواری
بھیّا، بہن آئی ہے زیارت کو تمھاری

مر جاؤں گی حضرت کو جو پانے کی نہیں میں
بے آپ کے دیکھے ہوئے جانے کی نہیں میں


اُس وقت شہِ دیں نے سنی زاریِ خواہر
جس وقت کہ تھا حلقِ مبارک تہہِ خنجر
فرمایا اشارے سے کہ اے شمرِ ستم گر
زینب نکل آئی ہے، ٹھہر جا ابھی دم بھر

آخر تو سفر ہوتا ہے اس دارِ محن سے
دو باتیں تو کر لینے دے بھائی کو بہن سے


منہ پھیر لیا شمر نے خنجر کو ہٹا کے
دی شہ نے یہ زینب کو صدا اشک بہا کے
تڑپاتی ہو بھائی کو بہن بلوے میں آ کے
دیکھو گی کِسے، ہم تو ہیں پنجے میں قضا کے

اٹھ سکتے نہیں جسم پہ تلواریں پڑی ہیں
گھبراؤ نہ، امّاں مرے پہلو میں کھڑی ہیں


جاؤ صفِ ماتم پہ کرو گریہ و زاری
گھر سے نکل آئے نہ سکینہ مری پیاری
فردوس سے آ پہنچی ہے نانا کی سواری
بس اب نہ سنو گی بہن آواز ہماری

رونا ہے تو رو لیجو مرے لاشے پہ آ کے
ہٹ جاؤ کہ سر کٹتا ہے سجدے میں خدا کے


دوڑی یہ صدا سن کے یداللہ کی جائی
چلّائی کہ دیدار تو میں دیکھ لوں بھائی
پر ہائے، بہن بھائی تلک آنے نہ پائی
یاں ہو گئی سیّد کے تن و سر میں جدائی

قاتل کو نہ گردن کو نہ شمشیر کو دیکھا
پہنچیں تو سناں پر سرِ شبّیر کو دیکھا


سر دیکھ کے بھائی کا وہ بے کس یہ پکاری
دکھ پائی بہن آپ کی مظلومی کے واری
خنجر سے یہ گردن کی رگیں کٹ گئیں ساری
تم مر گئے پوچھے گا خبر کون ہماری

آفت میں پھنسی آل رسولِ عَرَبی کی
اب جائیں کہاں بیٹیاں زہرا و علی کی


ہے ہے، پسرِ صاحبِ معراج حُسینا
پردیس میں بیووں کا لٹا راج حُسینا
گویا کہ علی قتل ہوئے آج حُسینا
ہے ہے، کفن و گور کے محتاج حُسینا

پرسا بھی ترا دینے کو آتا نہیں کوئی
لاشا بھی زمیں پر سے اٹھاتا نہیں کوئی


قربان بہن، اے مرے سرور، مرے سیّد
مذبوحِ قفا کشتۂ خنجر، مرے سیّد
اے فاقہ کش و بیکس و بے پر، مرے سیّد
پنجے میں ہے قاتل کے ترا سر، مرے سیّد

دیتے ہو صدا کچھ، نہ بلاتے ہو بہن کو
کس یاس سے تکتے چلے جاتے ہو بہن کو


بھیّا، مرا کوئی نہیں، تم خوب ہو آگاہ
احمد ہیں، نہ زہرا، نہ حَسن ہیں نہ یداللہ
ڈھارس تھی بڑی آپ کی اے سیّدِ ذی جاہ
چھوڑا مجھے جنگل میں یہ کیا قہر کیا، آہ

چلتے ہوئے کچھ مجھ سے نہ فرما گئے بھائی
بھینا کو نجف تک بھی نہ پہنچا گئے بھائی


اے میرے شہید اے مرے ماں جائے برادر
کس سے ترا لاشہ بہن اٹھوائے برادر
کس طرح مرے دل کو قرار آئے برادر
پانی بھی نہ قاتل نے دیا ہائے برادر

انساں پہ ستم یہ کبھی انساں نہیں کرتا
حیواں کو بھی پیاسا کوئی بے جاں نہیں کرتا


خاموش انیس اب کہ ہے دل سینے میں بے چین
لکھّے نہیں جاتے جو زینب نے کیے بین
اب حق سے دعا مانگ کہ اے خالقِ کونین
حاسد ہیں بہت، دل کو عطا کر مرے تو چین

ناحق ہے عداوت انھیں اس ہیچ مداں سے
بے تیغ کٹے جاتے ہیں شمشیرِ زباں سے


(ختم شد مرثیہ نمبر 1)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا)



کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا
کیا درد ہے جز دل کوئی محرم نہیں جس کا
کیا داغ ہے جلنا کوئی دم کم نہیں جس کا
کیا غم ہے کہ آخر کبھی ماتم نہیں جس کا

کس داغ میں صدمہ ہے فراقِ تن و جاں کا
وہ داغ ضعیفی میں ہے، فرزندِ جواں کا


(مطلعِ دوم)

جب باغِ جہاں اکبرِ ذی جاہ سے چُھوٹا
پیری میں برابر کا پسر شاہ سے چُھوٹا
فرزندِ جواں، ابنِ اسد اللہ سے چُھوٹا
کیا اخترِ خورشید لقا ماہ سے چُھوٹا

تصویرِ غم و درد سراپا ہوئے شپّیر
ناموس میں ماتم تھا کہ تنہا ہوئے شپّیر


ہے ہے علی اکبر کا ادھر شور تھا گھر میں
اندھیر تھی دنیا، شہِ والا کی نظر میں
فرماتے تھے سوزش ہے عجب داغِ پسر میں
اٹھتا ہے دھواں، آگ بھڑکتی ہے جگر میں

پیغامِ اجل اکبرِ ناشاد کا غم ہے
عاجز ہے بشر جس سے وہ اولاد کا غم ہے


اس گیسوؤں والے کے بچھڑ جانے نے مارا
افسوس بڑھا ضعف، گھٹا زور ہمارا
دنیا میں محمد کا یہ ماتم ہے دوبارا
عالم ہے عجب جانِ جہاں آج سدھارا

چادر بھی نہیں لاشۂ فرزندِ حَسیں پر
کس عرش کے تارے کو سلا آئے زمیں پر


پیری پہ مری رحم کر اے خالقِ ذوالمَن
طے جلد ہو اب مرحلۂ خنجر و گردن
قتلِ علی اکبر کی خوشی کرتے ہیں دشمن
تجھ پر مرے اندوہ کا سب حال ہے روشن

مظلوم ہوں، مجبور ہوں، مجروح جگر ہوں
تو صبر عطا کر مجھے، یا رب کہ بشر ہوں


پھر لاشۂ اکبر نظر آئے تو نہ روؤں
برچھی جو کلیجے میں در آئے تو نہ روؤں
دل دردِ محبت سے بھر آئے تو نہ روؤں
سو بار جو منہ تک جگر آئے تو نہ روؤں

شکوہ نہ زباں سے غمِ اولاد میں نکلے
دم تن سے جو نکلے تو تری یاد میں نکلے


اک عمر کی دولت تھی جسے ہاتھ سے کھویا
ہر وقت رہا، میں تری خوشنودی کا جویا
پالا تھا جسے گود میں وہ خاک پہ سویا
میں لاش پہ بھی خوف سے تیرے نہیں رویا

قسمت نے جوانوں کو سبکدوش کیا ہے
مجھ کو تو اجل نے بھی فراموش کیا ہے


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


یہ تازہ جواں تھا مری پیری کا سہارا
آگے مرے اعدا نے اسے نیزے سے مارا
ناشاد و پُر ارمان اٹھا وہ مرا پیارا
اٹھارھواں تھا سال کہ دنیا سے سدھارا

سمجھوں گا میں روئے مجھے روئیں گے اس کو
یہ ہے وہ جواں مرگ کہ سب روئیں گے اس کو


اس حال سے روتے ہوئے داخل ہوئے گھر میں
تر تھی تنِ انور کی قبا خونِ پسر میں
سوزش دلِ پُر داغ میں ہے، درد جگر میں
خم آ گیا تھا بارِ مصیبت سے کمر میں

پنہاں تھا جو فرزندِ جگر بند نگہ سے
موتی رُخِ انور سے ٹپکتے تھے مژہ سے


بانو سے کہا رو کے خوشا حال تمھارا
صرفِ رہِ معبود ہوا مال تمھارا
مقبول ہوئی نذر یہ اقبال تمھارا
سجدے کرو، پروان چڑھا لال تمھارا

دل خوں ہے کلیجے پہ سناں کھا کے مرے ہیں
ہم اُس کی امانت اسے پہنچا کے پھرے ہیں


جیتے تھے تو آخر علی اکبر کبھی مرتے
گر بیاہ بھی ہوتا تو زمانے سے گزرتے
سینے سے کلیجے کو جدا ہم جو نہ کرتے
بگڑی ہوئی امّت کے نہ پھر کام سنورتے

گر حلق سے اس شیر کی شمشیر نہ ملتی
یہ اجر نہ ہاتھ آتا یہ توقیر نہ ملتی


صاحب، تمھیں ہم سے ہے محبت تو نہ رونا
بیٹا تو گیا، صبر کی دولت کو نہ کھونا
اکبر نے تو آباد کیا، قبر کا کونا
ہم بھی ہوں اگر ذبح تو بیتاب نہ ہونا

جز نفع ضرر طاعتِ باری میں نہیں ہے
جو صبر میں لذّت ہے وہ زاری میں نہیں ہے


اکبر نے تو جاں اپنی جوانی میں گنوائی
تھی کون سی ایذا جو نہ اس لال نے پائی
افسوس کہ پیری میں ہمیں موت نہ آئی
تلوار نہ سر پر نہ سناں سینے پہ کھائی

غم کھائیں گے خونِ دلِ مجروح پئیں گے
کیا زور ہے جب تک وہ جِلائے گا جئیں گے


دستور ہے مرتا ہے پدر آگے پسر کے
پہلے وہ اٹھے تھامنے والے تھے جو گھر کے
اب کون اٹھائے گا جنازے کو پدر کے
افسوس لحد بھی نہ ملے گی ہمیں مر کے

سر نیزے پہ اور دشت میں تن ہوگا ہمارا
خاک اڑ کے پڑے گی یہ کفن ہوگا ہمارا


زینب سے کہا رختِ کُہن، لاؤ تو پہنیں
ملبوسِ شہنشاہِ زمن، لاؤ تو پہنیں
موت آ گئی اب سر پہ کفن، لاؤ تو پہنیں
کپڑے جو پھٹے ہوں وہ بہن، لاؤ تو پہنیں

سر کٹ کے جو تن وادیِ پُر خار میں رہ جائے
شاید یہی پوشاک تنِ زار میں رہ جائے


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


اللہ نے بچپن میں مرے ناز اٹھائے
طفلی میں کسی نے شرف ایسے نہیں پائے
عریاں تھا کہ جبرئیلِ امیں عرش سے آئے
فردوس کے حلّے مرے پہنانے کو لائے

بیکس ہوں، دل افگار ہوں آوارہ وطن ہوں
میں ہوں وہی شبیر کہ محتاجِ کفن ہوں


جو مصلحت اُس کی ہے نہیں رحم سے خالی
صابر کو عطا کرتا ہے وہ رتبۂ عالی
وارث وہی بچّوں کا وہی رانڈوں کا والی
مقہور ہے وہ جس نے بنا ظلم کی ڈالی

قاتل کا دمِ ذبح بھی شکوہ نہ کروں گا
یہ بھی کرم اس کا ہے کہ مظلوم مروں گا


ناشاد بہن پاؤں پہ گر کر یہ پکاری
ماں جائے برادر، تری غربت کے میں واری
بن بھائی کے ہوتی ہے یدُاللہ کی پیاری
گھر لٹتا ہے کیوں کر نہ کروں گریہ و زاری

رونے کو نجف تک بھی کُھلے سر نہ گئی میں
خالی یہ بھرا گھر ہوا اور مر نہ گئی میں


بچپن تھا کہ امّاں سے ہوئی پہلے جدائی
بابا کے لیے ماتمی صف میں نے بچھائی
روتی تھی پدر کو کہ سفر کر گئے بھائی
یثرب بھی چُھٹا دیس سے پردیس میں آئی

غم دیکھوں بڑے بھائی کا ماں باپ کو روؤں
قسمت میں یہ لکّھا تھا کہ اب آپ کو روؤں


فرمایا کہ دنیا میں نہیں موت سے چارا
رہ جاتے ہیں ماں باپ بچھڑ جاتا ہے پیارا
ہجرِ علی اکبر تھا کسی کو بھی گوارا
وہ مر گئے اور کچھ نہ چلا زور ہمارا

دیکھا جسے آباد وہ گھر خاک بھی دیکھو
اب خاتمۂ پنجتنِ پاک بھی دیکھو


کس کس کی نہ دولت پہ زوال آ گیا زینب
پابندِ رضا تھا تو شرف پا گیا زینب
دنیا سے گیا جو تنِ تنہا گیا زینب
کِھلتا نہیں وہ پھول جو مرجھا گیا زینب

جو منزلِ ہستی سے گیا پھر نہیں ملتا
یہ راہ وہ ہے جس کا مسافر نہیں ملتا


میں کون ہوں اِک تشنہ لب و بیکس و محتاج
بندہ تھا خدا کا سو ہوا ہوں میں طلب آج
وہ کیا ہوئے جو لوگ تھے کونین کے سرتاج
نہ حیدرِ کرّار ہیں نہ صاحبِ معراج

کچھ پیٹنے رونے سے نہ ہاتھ آئیگا زینب
آیا ہے جو اس دہر میں وہ جائیگا زینب


کس طرح وہ بیکس نہ اجل کا ہو طلب گار
ناصر نہ ہو جس کا کوئی دنیا میں نہ غمخوار
اک جانِ حزیں لاکھ مصیبت میں گرفتار
اکبر ہیں نہ قاسم ہیں نہ عبّاسِ علمدار

کوشش ہے کہ سجدہ تہِ شمشیر ادا ہو
تنہائی کا مرنا ہے خدا جانیے کیا ہو


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


قاتل جو چُھری خشک گلے پر مرے پھیرے
خالص رہے نیّت کوئی تشویش نہ گھیرے
کٹنے میں رگوں کے یہ سخن لب پہ ہو میرے
قربان حسین ابنِ علی نام پہ تیرے

بہنوں کی نہ ہو فکر نہ بچّوں کی خبر ہو
اس صبر سے سر دوں کہ مہم عشق کی سر ہو


گو تیسرا فاقہ ہے مگر ہے مجھے سیری
گھبراتا ہوں ہوتی ہے جو سر کٹنے میں دیری
کچھ غم نہیں امّت نے نظر مجھ سے جو پھیری
راضی رہے معبود یہی فتح ہے میری

ہدیہ مرا مقبول ہو درگاہ میں اس کی
آباد وہ گھر ہے جو لُٹے راہ میں اس کی


فرما کے یہ ہتھیار سجے آپ نے تن پر
غُل پڑ گیا شاہِ شہدا چڑھتے ہیں رن پر
احمد کی قبا آپ نے پہنی جو بدن پر
پیدا ہوا اک جلوۂ نَو رختِ کہن پر

اللہ رے خوشبو تنِ محبوبِ خدا کی
پھولوں کی مہک آ گئی کلیوں سے قبا کی


وہ پھول سے رخسار گلابی وہ عمامہ
تعریف میں خود جس کی سر افگندہ ہے خامہ
وہ زرد عبا نور کی وہ نور کا جامہ
برسوں جو لکھیں ختم نہ ہو مدح کا نامہ

کپڑے تنِ گلرنگ کے خوشبو میں بسے تھے
ٹوٹی کمر امّت کی شفاعت پہ کسے تھے


شمشیرِ یداللہ لگائی جو کمر سے
سر پیٹ کے زینب نے ردا پھینک دی سر سے
سمجھاتے ہوئے سب کو چلے آپ جو گھر سے
بچّوں کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے

اُس غُل میں جدا شہ سے نہ ہوتی تھی سکینہ
پھیلائے ہوئے ہاتھوں کو روتی تھی سکینہ


شہ کہتے تھے بی بی ہمیں رو کر نہ رلاؤ
پھر پیار کریں گے ہم تمھیں منہ آگے تو لاؤ
وہ کہتی تھی ہمراہ مجھے لے لو تو جاؤ
میں کیا کروں میداں میں اگر جا کے نہ آؤ

نیند آئے گی جب آپ کی بُو پاؤں گی بابا
میں رات کو مقتل میں چلی آؤں گی بابا


فرمایا نکلتی نہیں سیدانیاں باہر
چھاتی پہ سلائے گی تمھیں رات کو مادر
وہ کہتی تھی سوئیں گے کہاں پھر اعلی اصغر
فرماتے تھے بس ضد نہ کرو صدقے میں تم پر

شب ہوئے گی اور دشت میں ہم ہوئینگے بی بی
اصغر مرے ساتھ آج وہیں سوئینگے بی بی

.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)

وہ کہتی تھی بس دیکھ لیا آپ کا بھی پیار
میں آپ سے بولوں گی نہ اب یا شہِ ابرار
اچّھا نہ اگر کیجیئے جلد آنے کا اقرار
مر جاؤں گی اس شب کو تڑپ کر میں دل افگار

کیسی ہیں یہ باتیں مرا دل روتا ہے بابا
گھر چھوڑ کے جنگل میں کوئی سوتا ہے بابا


اصغر کبھی ساتھ آپ کے اب تک نہیں سوئے
بہلا لیا امّاں نے اگر چونک کے روئے
شفقت تھی مجھی پر کہ یہ بے چین نہ ہوئے
یہ پیار ہو جس پر اُسے یوں ہاتھ سے کھوئے

جیتے رہیں فرزند کہ سب لختِ جگر ہیں
میں آپ کی بیٹی ہوں وہ امّاں کے پسر ہیں


شہ کہتے تھے صدمہ دلِ مضطر پہ ہے بی بی
ہفتم سے تباہی مرے سب گھر پہ ہے بی بی
اعدا کی یُرَش سبطِ پیمبر پہ ہے بی بی
جس نے تمھیں پیدا کیا وہ سر پہ ہے بی بی

چُھوٹے نہ وہ جو صبر کا جادہ ہے سکینہ
ماں باپ سے پیار اس کا زیادہ ہے سکینہ


لو روؤ نہ اب صبر کرو باپ کو جانی
کچھ دیتی ہو عبّاس کو پیغام زبانی
اُودے ہیں لبِ لعل یہ ہے تشنہ دہانی
ملتا ہے تو بی بی کے لیے لاتے ہیں پانی

محبوبِ الٰہی کے نواسے ہیں سکینہ
ہم بھی تو کئی روز کے پیاسے ہیں سکینہ


دنیا ہے یہ، شادی ہے کبھی اور کبھی آلام
راحت کی کبھی صبح، مصیبت کی کبھی شام
یکساں نہیں ہوتا کبھی آغاز کا انجام
وہ دن گئے کرتی تھیں جو اس چھاتی پہ آرام

ضد کر کے نہ اب رات کو رویا کرو بی بی
جب ہم نہ ہوں تم خاک پہ سویا کرو بی بی


سمجھا کے چلے آپ سکینہ کو غش آیا
غُل تھا کہ اٹھا سر سے شہنشاہ کا سایا
ڈیوڑھی سے جو نکلا اسد اللہ کا جایا
رہوارِ سبک سیر کو روتا ہوا پایا

کس عالمِ تنہائی میں سیّد کا سفر تھا
بھائی نہ بھتیجا نہ ملازم نہ پسر تھا


سائے کی طرح جو نہ جدا ہوتی تھی دم بھر
وہ رات کی جاگی ہوئی سوتی تھی زمیں پر
گردوں کی طرف دیکھ کے فرماتے تھے سروَر
تُو سر پہ ہے، تنہا نہیں فرزندِ پیمبر

کچھ کام نہ اس بیکس و ناشاد سے ہوگا
جو ہوگا وہ مولا تری امداد سے ہوگا


روتے ہوئے مولا جو قریبِ فرس آئے
نصرت کی صفیں باندھے مَلک پیش و پس آئے
فریاد کناں جِن بھی مثالِ جرس آئے
جنگل سے ہٹے پانچ جو دستے تو دس آئے

ڈھالیں لیے سب ہاتھوں کو قبضوں پہ دھرے تھے
لشکر سے جِنوں کے بھی کئی دشت بھرے تھے


تھی قومِ نبی جان بھی سرداری کو حاضر
فوجوں کے طلائے تھے خبرداری کو حاضر
لشکر تھا فرشتوں کا مددگاری کو حاضر
جبریل تھے خود حاشیہ برداری کو حاضر

تولے ہوئے نیزوں کو لڑائی پہ تلے تھے
رہوار تو ابلق تھے علم سبز کھلے تھے


اصرار کیا سب نے پہ حضرت نے نہ مانا
جز حق مددِ غیر کو رد کرتے ہیں دانا
وہ شاہ کہ جس کے یدِ قدرت میں زمانا
کون آیا، گیا کون، یہ مطلق بھی نہ جانا

بندہ وہی بندہ ہے جو راضی ہو رضا پر
اوروں سے اُسے کیا جسے تکیہ ہو خدا پر


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


کی عرض ملائک نے کہ یا سیّدِ ابرار
ہم آپ کے بابا کی مدد کرتے تھے ہر بار
فرمایا وہ خواہاں تھے کہ مغلوب ہوں کفّار
میں اپنی شہادت کا خدا سے ہوں طلبگار

جان آج ہماری کسی صورت نہ بچے گی
بالفرض بچا لیں تو پھر امّت نہ بچے گی


زعفر نے یہ کی عرض بصد اشک فشانی
ہو حکم تو لے آؤں ابھی نہر سے پانی
کچھ کام تو لے اے اسداللہ کے جانی
فرمایا کہ مطلق نہیں اب تشنہ دہانی

دریا بھی جو خود آئے تو لب تر نہ کروں گا
احمد کا نواسا ہوں مَیں پیاسا ہی مروں گا


جس وقت فلک پر ہو عیاں ماہِ محرّم
ہر تعزیہ خانہ میں بپا ہو مرا ماتم
جو بیبیاں ہیں روئیں گھروں میں مجھے باہم
مَردوں میں یہ ہو شور کہ ہے ہے شہِ عالم

سب پیر و جواں روئیں یہ انجام ہو میرا
مظلوم حسین ابنِ علی نام ہو میرا


دنیا میں مرے گا جو کسی شخص کا بھائی
یاد آئے گی عبّاس دلاور کی جدائی
جاں اپنی بھتیجے نے کسی کے جو گنوائی
روئے گا کہ قاسم نے سناں سینہ پہ کھائی

اولاد کا ماتم جسے ناشاد کرے گا
اکبر کے جواں مرنے کو وہ یاد کرے گا


دس روز شب و روز ہو غل ہائے حُسینا
صدقے ترے اے فاطمہ کے جائے حُسینا
زخمِ تبر و تیر و سناں کھائے حُسینا
سب پانی پیئں اور نہ تُو پائے حُسینا

جب پانی پیئں اشک فشانی کو نہ بھولیں
بچّے بھی مری تشنہ دہانی کو نہ بھولیں


زینب نے پکارا مرے ماں جائے برادر
ناشاد بہن لینے رکاب آئے برادر
اب کوئی مددگار نہیں ہائے برادر
صدقے ہو بہن گر تمھیں پھر پائے برادر

غش آئے گا دو گام پیادہ جو بڑھو گے
اس ضعف میں رہوار پہ کس طرح چڑھو گے


حضرت نے یہ فرمایا کہ خواہر نہ نکلنا
جب تک کہ میں زندہ رہوں باہر نہ نکلنا
لِلہ بہن کھولے ہوئے سر نہ نکلنا
سر کھول کے کیا اوڑھ کے چادر نہ نکلنا

کیا تم نے کہا دل مرا تھرّا گیا زینب
بھائی کی مناجات میں فرق آ گیا زینب


رخصت ہوئے روتے ہوئے سارے مَلک و جن
گھوڑے پہ چڑھا تن کے وہ کونین کا محسن
آفت کا تھا وہ وقت قیامت کا تھا وہ دن
سایا نہ کسی جا تھا نہ پانی کہیں ممکن

عبّاس کے حملے جو لعیں دیکھ چکے تھے
دریا بھی نظر بند تھا یوں گھاٹ رکے تھے


وہ دوپہر اس دشت کی اور دن کا وہ ڈھلنا
وہ گرم زرہ اور وہ ہتھیاروں کا جلنا
وہ گرد کا مقتل میں تتق لوں کا وہ چلنا
وہ بَن میں پہاڑوں سے شراروں کا نکلنا

گرمی سے فرس میں بھی نہ وہ تیزتگی تھی
پیاسے تھے حسین آگ زمانے کو لگی تھی


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)


جب جنگ کو میداں میں شہِ بحر و بر آئے
اللہ ری تمازت کہ پسینے میں تر آئے
غصّے میں جو ہلتے ہوئے ابرو نظر آئے
غل تھا کہ علی تول کے تیغِ دو سر آئے

حُسنِ خمِ ابرو تھا دو بالا مہِ نَو سے
چہرے میں زیادہ تھی ضیا مہر کی ضَو سے


چہرہ وہ کہ رضواں تو دکھائے چمن ایسے
جنّت کے گلستاں میں نہیں گلبدن ایسے
لب بند ہوئے جاتے ہیں شیریں دہن ایسے
ہے شور جہاں میں نمک ایسا سخن ایسے

قرآں نہ اترتا تو قرأت بھی نہ ہوتی
یہ خلق نہ ہوتے تو فصاحت بھی نہ ہوتی


منظورِ نظر گیسو و رخسارۂ تاباں
ظلمت کی سحر گیسو و رخسارۂ تاباں
ہالے میں قمر گیسو و رخسارۂ تاباں
مشک و گلِ تر گیسو و رخسارۂ تاباں

دیکھے نہ کبھی نورِ سحر دیکھ کے ان کو
دو راتوں میں دو چاند نظر آتے ہیں دن کو


آئینے کا کیا منھ کہ جبیں سے ہو مقابل
مہتاب کہوں گر تو وہ ناقص ہے، یہ کامل
چہرے پہ کلف صاف ہے یہ عیب میں داخل
خورشید بھی اصلاً نہیں تشبیہ کے قابل

ہمسر ہوں وہ کیونکر کوئی نسبت نہیں جن کو
یہ رات کو پیشانی سے محجوب وہ دن کو


آراستہ لشکر ہے ادھر ہلتے ہیں بھالے
قبضوں پہ ہیں چالاک جواں ہاتھوں کو ڈالے
بد کیش ہیں واں تیروں کو ترکش سے نکالے
فوجوں پہ تو فوجیں ہیں رسالوں پہ رسالے

خنجر وہ کلیجے پہ جو زہرا کے پھرے ہیں
شاہِ شہدا قلعۂ آہن میں گھرے ہیں


تلواریں لیے دشمنِ جاں ایک طرف ہیں
گھوڑے پہ شہِ کون و مکاں ایک طرف ہیں
تیر ایک طرف گرزِ گراں ایک طرف ہیں
آپ ایک طرف، لاکھ جواں ایک طرف ہیں

سر کٹنے کا دھڑکا نہیں، وسواس نہیں ہے
فوجوں سے وغا اور کوئی پاس نہیں ہے


وہ دشت وہ گرمی وہ حرارت وہ تب و تاب
پانی کا جو قطرہ ہے وہ ہے گوہرِ نایاب
انسان کا تو کیا ذکر پرندے بھی ہیں بے تاب
لوں چلتی ہے مرجھائے ہوئے ہیں گلِ شاداب

اڑتے ہیں شرر آگ بیاباں میں بھری ہے
پھولوں میں نہ سرخی ہے نہ سبزے میں تری ہے


وہ دھوپ ہے جس میں کہ ہرن ہوتے ہیں کالے
ضیغم ہیں ترائی میں زبانوں کو نکالے
ریتی پہ دھرے پاؤں تو پڑ جاتے ہیں چھالے
دھوپ اس پہ یہ، سائے میں جسے فاطمہ پالے

تابش ہے کہ ایک کڑی نرم ہوئی ہے
سب سرخ ہے سینہ پہ زرہ گرم ہوئی ہے


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیہ نمبر 2

(گزشتہ سے پیوستہ)

بے سایہ جو ہے لاشۂ ہم شکلِ پیمبر
بکسے ہوئے ہیں دھوپ میں زخمِ تنِ انور
وا حسرت و دردا کہ نہیں لاش پہ چادر
سوتے ہیں لبِ نہر علم دارِ دلاور

تنہا جو وہ ساونت ہزاروں سے لڑا ہے
مارا ہوا اک شیر ترائی میں پڑا ہے


فرماتے ہیں گرمی کی بس اب مجھ کو نہیں تاب
میں تین شب و روز سے جنگل میں ہوں بے آب
مرجھائے ہیں سب باغِ علی کے گلِ شاداب
کیوں کر وہ جئے جس سے بچھڑ جائیں یہ احباب

صابر ہوں میں ایسا ہی کہ غش آ نہیں جاتا
ان پھولوں کو اس خاک پہ دیکھا نہیں جاتا


اتنی مجھے مہلت دو کہ قبریں تو بناؤں
سیدانیوں سے بہرِ کفن چادریں لاؤں
اس خاک میں ان چاند کے ٹکڑوں کو ملاؤں
یہ دفن ہوں میں قبر نہ پاؤں تو نہ پاؤں

قطرہ کوئی اس نہر سے پیاسے کو نہ دینا
مٹّی بھی محمد کے نواسے کو نہ دینا


کیا ان سے عداوت جو گئے دارِ فنا سے
کوتاہ ہیں چلنے سے قدم، ہاتھ وغا سے
مطلب انھیں دریا سے نہ کچھ سرد ہوا سے
رحم ان کا طریقہ ہے جو ڈرتے ہیں خدا سے

مہماں تھے لڑے بھی تو یہ سب حق پہ لڑے ہیں
آخر یہ بشر ہیں کہ جو بے گور پڑے ہیں


مرتا ہے مسافر کسی بستی میں کوئی گر
سب لوگ اسے غسل و کفن دیتے ہیں مل کر
قرآں کوئی پڑھتا ہے کہ بیکس تھا یہ بے پر
لے آتا ہے تربت پہ کوئی پھولوں کی چادر

غم کرتے ہیں سب فاتحہ خوانی میں سِوُم کو
سیّد ہیں یہ اور شرم نہیں آتی ہے تم کو


ان میں کئی بچّے ہیں کہ نکلے تھے نہ گھر سے
نازک ہیں صباحت میں زیادہ گلِ تر سے
افتادہ ہیں اس دھوپ میں یہ تین پہر سے
پوچھے کوئی یہ درد و الم میرے جگر سے

نرغہ ہے کہ تلواروں میں دم لے نہیں سکتا
زندہ ہوں میں اور ان کو کفن دے نہیں سکتا


یہ سن کے پکارا پسَرِ سعد بد افعال
کیسا کفن اور کیسی لحد فاطمہ کے لال
اکبر ہوں کہ ہوں قاسم و عبّاس خوش اقبال
ہم گھوڑوں کی ٹاپوں سے کرینگے انھیں پامال

سینوں پہ گلِ زخم ابھی اور کھلیں گے
سجّاد کو ٹکڑے بھی نہ لاشوں کے ملیں گے


حضرت نے کہا دور ہو او ظالمِ مردود
اللہ شہیدوں کی حفاظت کو ہے موجود
یہ وہ ہیں کہ زہرا و نبی جن سے ہیں خوشنود
ہر لاش کو گھیرے ہوئے ہے رحمتِ معبود

قبروں میں بھی جنّت کے چمن ان کو ملیں گے
فردوس کے حُلّوں کے کفن ان کو ملیں گے


۔
 
Top