محمد وارث
لائبریرین
مرثیہ نمبر 2
(گزشتہ سے پیوستہ)
میں دیر سے آمادہ ہوں تلوار کو تولے
کہدے کہ علَم فوج صفیں باندھ کے کھولے
ماروں انھیں پھوٹیں کہیں کچھ دل کے پھپھولے
سر تن سے اڑا دوں کوئی اب منہ سے جو بولے
آرام سفر کر گیا، راحت نہیں باقی
بڑھتا ہوں کہ بس اب کوئی حجّت نہیں باقی
یہ فوج ہے کیا آگ کا دریا ہو تو جھیلیں
کیا ڈر انھیں بچپن میں جو تلواروں سے کھیلیں
الٹیں صِفَتِ کاہ اگر کوہ کو ریلیں
کوفہ تو ہے کیا شام کو اور روم کو لے لیں
چاہیں تو زمیں کے ابھی ساتوں طبق الٹیں
یوں الٹیں کے جس طرح ہوا سے ورق الٹیں
کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں گنبدِ گردان
نُہ ورقے ہیں اک جزوِ کتابِ شہ مردان
ہم آج ہیں عالم میں قضا فہم و قدر دان
حق بین و حق آگاہ و سخن سنج و ہنر دان
کس امر میں تقلیدِ محمد نہیں کرتے
فاقوں میں سوالِ فقَرا رد نہیں کرتے
اللہ نے کونین کی شاہی ہمیں دی ہے
امداد رسولوں کی مرے باپ نے کی ہے
مجھ میں بھی وہی دل، وہی شوکت، وہی جی ہے
سر برسے ہیں جب تیغِ علی میان سے لی ہے
سر تن سے کٹے جب تو مہم جنگ کی سر ہے
مر جائے بہ عزّت یہ بہادر کی ظفر ہے
ہم دولتِ دنیا کبھی گھر میں نہیں رکھتے
توقیرِ زر و مال نظر میں نہیں رکھتے
رکھتے ہیں قدم خیر میں، شر میں نہیں رکھتے
کچھ اور بجز تیغ کمر میں نہیں رکھتے
نذرِ رہِ معبود تن و سر ہے ہمارا
زیور ہے یہی اور یہی سر ہے ہمارا
شہر اس کی تب و تاب سے ویرانے ہوئے ہیں
جب چمکی ہے یہ دیو بھی دیوانے ہوئے ہیں
منھ وہ ہے کہ تلواروں میں دندانے ہوئے ہیں
لوہا وہ کہ جبریل جسے مانے ہوئے ہیں
کر دیتی ہے شب دشمنِ ایماں کے دنوں کو
جڑھ آتی ہے تپ اس کے شراروں سے جنوں کو
برباد اسی تیغ سے سر کٹ کے ہوئے ہیں
جانبر جو ہوئے، بھاگ کے یا ہٹ کے ہوئے ہیں
عاجز ہے زرِہ، خود بھی سر پٹکے ہوئے ہیں
اب تک پر جبریلِ امیں لٹکے ہوئے ہیں
باعث یہ نہ ہوتا تو پھر آرام نہ لیتے
تھا خاتمہ گر ہاتھ علی تھام نہ لیتے
.
(گزشتہ سے پیوستہ)
میں دیر سے آمادہ ہوں تلوار کو تولے
کہدے کہ علَم فوج صفیں باندھ کے کھولے
ماروں انھیں پھوٹیں کہیں کچھ دل کے پھپھولے
سر تن سے اڑا دوں کوئی اب منہ سے جو بولے
آرام سفر کر گیا، راحت نہیں باقی
بڑھتا ہوں کہ بس اب کوئی حجّت نہیں باقی
یہ فوج ہے کیا آگ کا دریا ہو تو جھیلیں
کیا ڈر انھیں بچپن میں جو تلواروں سے کھیلیں
الٹیں صِفَتِ کاہ اگر کوہ کو ریلیں
کوفہ تو ہے کیا شام کو اور روم کو لے لیں
چاہیں تو زمیں کے ابھی ساتوں طبق الٹیں
یوں الٹیں کے جس طرح ہوا سے ورق الٹیں
کہتے ہیں جسے اہلِ جہاں گنبدِ گردان
نُہ ورقے ہیں اک جزوِ کتابِ شہ مردان
ہم آج ہیں عالم میں قضا فہم و قدر دان
حق بین و حق آگاہ و سخن سنج و ہنر دان
کس امر میں تقلیدِ محمد نہیں کرتے
فاقوں میں سوالِ فقَرا رد نہیں کرتے
اللہ نے کونین کی شاہی ہمیں دی ہے
امداد رسولوں کی مرے باپ نے کی ہے
مجھ میں بھی وہی دل، وہی شوکت، وہی جی ہے
سر برسے ہیں جب تیغِ علی میان سے لی ہے
سر تن سے کٹے جب تو مہم جنگ کی سر ہے
مر جائے بہ عزّت یہ بہادر کی ظفر ہے
ہم دولتِ دنیا کبھی گھر میں نہیں رکھتے
توقیرِ زر و مال نظر میں نہیں رکھتے
رکھتے ہیں قدم خیر میں، شر میں نہیں رکھتے
کچھ اور بجز تیغ کمر میں نہیں رکھتے
نذرِ رہِ معبود تن و سر ہے ہمارا
زیور ہے یہی اور یہی سر ہے ہمارا
شہر اس کی تب و تاب سے ویرانے ہوئے ہیں
جب چمکی ہے یہ دیو بھی دیوانے ہوئے ہیں
منھ وہ ہے کہ تلواروں میں دندانے ہوئے ہیں
لوہا وہ کہ جبریل جسے مانے ہوئے ہیں
کر دیتی ہے شب دشمنِ ایماں کے دنوں کو
جڑھ آتی ہے تپ اس کے شراروں سے جنوں کو
برباد اسی تیغ سے سر کٹ کے ہوئے ہیں
جانبر جو ہوئے، بھاگ کے یا ہٹ کے ہوئے ہیں
عاجز ہے زرِہ، خود بھی سر پٹکے ہوئے ہیں
اب تک پر جبریلِ امیں لٹکے ہوئے ہیں
باعث یہ نہ ہوتا تو پھر آرام نہ لیتے
تھا خاتمہ گر ہاتھ علی تھام نہ لیتے
.