انیس سلام۔ میر انیس

الف عین

لائبریرین
سلام

میر انیس

سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو


پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو

لحدمیں سوئےہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو
قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو

یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے
چنا ہے جامہ ہستی کی آستینوں کو

لگارہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

بجا ہے اس لیئے اکبر سے تھا حسین سے عشق
کہ دوست رکھتا ہےاللہ بھی حسینوں کو

حسین جاتے ہیں بحر نبرد میداں میں
چڑھائے مثل یدا للہ آستینوں کو

بھلا تردّد بے جا پہ اس میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار ان زمینوں کو

علم لیئے ہوئے عبّاس نکلے خیمے سے
چڑھا لیا علی اکبر نےآستینوں کو

مزہ یہ طرفہ ہے مضمون تک بھی یاد نہیں
مقابلہ پہ چڑھائے ہیں ہیں آستینوں کو

غلط یہ لفظ'وہ بندش بری' یہ مضموں سست
ہنر عجیب ملا ہےیہ نکتہ چینوں کو


فلک پہ جب ہوئ آواز ارکبو دم تو
توغازیوں نے رکھا مرکبوں پہ زینوں کو

لگا وغا میں ٹپکنے لہو جو قبضہ سے
چڑھا لیا شہ والا نے آستینوں کو

دہان کیسہ زر بند کر پر ائے منعم
خدا کے واسطے وا کر جبیں کی چینوں کو

خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائےآبگینوں کو

تشکر: علی گڑھ اردو کلب، ٹائپنگ۔ حسن فرخ
راشد آذرکا خیال ہے کہ کئی اشعار غلط ٹائپ ہوئے ہیں، کوئی سخنور (فرخ اکیلے ہی نہیں) نشان دہی اور تصحیح کر سکتا ہے؟
 

شاہ حسین

محفلین
بہت شکریہ استاد محترم بلا شبہ انیس کے جواہر میں یہ ایک بے مثل موتی ہے ۔

بجا ہے اس لیئے اکبر سے تھا حسین سے عشق
کہ دوست رکھتا ہےاللہ بھی حسینوں کو

میری یاداشت کے مطابق سے کی جگہ کو ہے

کافی اشعار یاداشت کی بدولت درست پاتا ہوں ۔ افسوس میر انیس کے سلاموں کا مجموعہ ایک صاحب لے کر گئے ہوئے ہیں اور واپسی کی کوئی امید باقی نہیں ۔
 
Top