کلاسیکی شاعری

  1. فرخ منظور

    نظیر کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا ۔ نظیر اکبر آبادی

    کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا اپنا بھی اس طرف گزر عاشقانہ تھا مل بیٹھنے کے واسطے آپس میں ہر گھڑی تھا کچھ فریب واں تو ادھر کچھ بہانہ تھا چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا...
  2. فرخ منظور

    نظیر دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا ۔ نظیر اکبر آبادی

    دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا لیا جس نے اس کا احسان کیسا جہاں زلف کافر میں دل پھنس گیا ہے تو واں دین کیسا اور ایمان کیسا ادا نے کیا دل کو پہلو میں بے کل کرے گی ستم دیکھیے آن کیسا ادھر کاجل آنکھوں میں کیا کیا کھلا ہے ملا ہے مسی سے ادھر پان کیسا نظیر اس سے ہم نے چھپایا جو دل کو تو ہنس کر کہا...
  3. فرخ منظور

    نظیر رہوں کاہے کو دل خستہ پھروں کاہے کو آوارا۔ نظیر اکبر آبادی

    رہوں کاہے کو دل خستہ پھروں کاہے کو آوارا اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ مارا خدا گر مجھ گدا کو سلطنت بخشت تو میں یارو بہ حالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را ہم اپنا تو بہشت و چشمۂ کوثر سمجھتے ہیں کنار آب رکنا باد و گلگشت مصلیٰ را زمیں پر آیا جب یوسف اسی دن آسماں رویا کہ عشق از پردۂ عصمت بروں...
  4. فرخ منظور

    نظیر وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا ۔ نظیر اکبر آبادی

    وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا کہ میں حیا ہی پر اس کی فقط نثار ہوا سبھوں کو بوسے دئیے ہنس کے، اور ہمیں گالی ہزار شکر! بھلا اس قدر تو پیار ہوا ہمارے مرنے کو، ہاں، تم تو جھوٹ سمجھے تھے کہا رقیب نے، لو، اب تو اعتبار ہوا قرار کر کے نہ آیا وہ سنگ دل کافر پڑیں قرار پہ پتھر، یہ کچھ قرار ہوا...
  5. محمد وارث

    نظیر غزل - ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا - نظیر اکبر آبادی

    ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ سنلقی علیہم عذاباً ثقیلا نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل تُو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا کہستاں میں ماروں اگر آہ کا دم فکانت جبالاً کثیباً مہیلا نظیر اس کے فضل و کرم پر نظر رکھ فقُل، حسبی اللہ نعم...
  6. فرخ منظور

    غالب روزہ ۔ مرزا غالب

    روزہ افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
  7. فرخ منظور

    سودا بلبل چمن میں کس کی ہیں یہ بد شرابیاں ۔ سودا

    بلبل چمن میں کس کی ہیں یہ بد شرابیاں ٹوٹی پڑی ہیں غنچوں کی ساری رکابیاں تجھ مُکھ پہ تا نثار کریں ، مہر و ماہ کو لب ریز سیم و زر سے ہیں دونوں رکابیاں صیّاد کہہ تو کِن نے کبوتر کو دام میں سکھلا دیاں ہیں دل کی مرے اضطرابیاں زاہد جو کہنے سے تُو ہمارے پیے شراب مصری کی دیں منگا کے تمہیں ہم گُلابیاں...
  8. فرخ منظور

    پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل ۔ قائم چاند پوری

    غزل پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل جھمکے ہے مثلِ شعلہ ہر اک سو چراغِ گُل صرفے سے آہ و نالہ کر اے عندلیبِ زار ڈرتا ہوں میں کہ ہو نہ پریشاں دماغِ گُل دے کیوں نہ داغِ دل سے دمِ سرد اطلاع ملتا ہے نت نسیمِ سحر سے سراغِ گُل مت ڈھونڈ ہم گرفتہ دلوں سے کشادِ طبع غنچے کو کیوں کہ ہووے میسّر...
  9. فرخ منظور

    میر وہ رابطہ نہیں ، وہ محبت نہیں رہی ۔ میر تقی میر

    غزل وہ رابطہ نہیں ، وہ محبت نہیں رہی اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی دیکھا تو مثلِ اشک نظر سے گرا دیا اب میری ، اُس کی آنکھ میں عزّت نہیں رہی رُندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغِ حرف دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی تھی تاب جی میر جب تئیں رنج و تعب کھنچے وہ جسم اب نہیں ہے ، وہ قدرت...
  10. فرخ منظور

    میر بود نقش و نگار سا ہے کچھ ۔ میر تقی میر

    غزل بود نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اِک اعتبار سا ہے کچھ یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ کہنے کو اختیار سا ہے کچھ منتظر اس کی گردِ راہ کے تھے آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ ضعفِ پیری میں زندگانی بھی دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ کیا ہے ، دیکھو جو...
  11. فرخ منظور

    میر چشم سے خوں ہزار نکلے گا ۔ میر تقی میر

    غزل چشم سے خوں ہزار نکلے گا کوئی دل کا بخار نکلے گا اُس کی نخچیر گہ سے روح الامیں ہو کے آخر شکار نکلے گا آندھیوں سے سیاہ ہوگا چرخ دل کا تب کچھ غبار نکلے گا *ہوئے رے لاگ تیرِ مژگاں کی کس کے سینے کے پار نکلے گا نازِ خورشید کب تلک کھینچیں گھر سے کب اپنے یار نکلے گا خون ہی آئے گا تو...
  12. فرخ منظور

    میر بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے ۔ میر تقی میر

    غزل بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے بے کس ہوئے ، بے بس ہوئے ، بے کل ہوئے ، بے گت ہوئے ہم عشق میں کیا کیا ہوئے ، اب آخر آخر ہو چکے بے مت ہوئے ، بے ست ہوئے ، بے خود ہوئے ، میّت ہوئے الفت جو کی ، کہتا ہے جی ، حالت نہیں ، عزّت نہیں ہم بابتِ ذلّت ہوئے ، شائستۂ کُلفت ہوئے گر کوہِ...
  13. فرخ منظور

    میر حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے ۔ میر

    غزل حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے آنکھیں مَل کر کھولیں اُن نے عالم میں آشوب اٹھا بال کھُلے دکھلائی دیا ، سو ہر کوئی سودائی ہے ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے نسبت کیا اُن...
  14. فرخ منظور

    میر موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے ۔ میر

    غزل موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے کیا سمجھے ، اُس کے رتبۂ عالی کو اہلِ خاک پھرتے ہیں جوں سپہر بہت ہم ورے ورے مرتا تھا میں تو ، باز رکھا مرنے سے مجھے یہ کہہ کے ، کوئی ایسا کرے ہے...
  15. فرخ منظور

    میر چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے ۔ میر

    غزل چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے فقیروں کی اللہ اللہ ہے نہ افسر ہے نے دردِ سر نے کُلہ کہ یاں جیسا سر ویسا سر واہ ہے جہاں لگ چلی گُل سے ہم داغ ہیں اگرچہ صبا بھی ہوا خواہ ہے غمِ عشق ہے ناگہانی بلا جہاں دل لگا کڑھنا جانکاہ ہے چراغانِ گُل سے ہے کیا روشنی گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے محبت ہے دریا میں...
  16. فرخ منظور

    میر یہ سَرا سونے کی جاگہ نہیں ، بیدار رہو۔ میر تقی میر

    غزل یہ سَرا سونے کی جاگہ نہیں ، بیدار رہو ہم نے کر دی ہے خبر تم کو ، خبردار رہو آپ تو ایسے بنے اب کہ جلے جی سب کا ہم کو کہتے ہیں کہ تم جی کے تئیں مار رہو لاگ اگر دل کو نہیں ، لطف نہیں جینے کا الجھے سلجھے کسو کاکُل کے گرفتار رہو گرچہ وہ گوہرِ تر ہاتھ نہیں لگتا لیک دم میں دم جب تئیں ہے ،...
  17. فرخ منظور

    آتش یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا ۔ آتش

    غزل یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا...
  18. فرخ منظور

    مصحفی خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا ۔ مصحفی

    خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے ہم میں تری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا...
  19. فرخ منظور

    سودا غزل۔ ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے ۔ سودا

    غزل ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے یہ وہ نین ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے پلکیں تری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں افواجِ قاہرہ کے نہ برہم پرے ہوئے انکھیوں کو تیری کیونکہ میں باندھوں کہ یہ غزال جاتے ہیں میرے دل کی زراعت...
  20. فرخ منظور

    حالی آگے بڑھے نہ قصۂ عشقِ بتاں سے ہم ۔ حالی

    آگے بڑھے نہ قصۂ عشقِ بتاں سے ہم سب کچھ کہا مگر نہ کھُلے رازداں سے ہم اب بھاگتے ہیں سایۂ عشقِ بتاں سے ہم کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم خود رفتگیِ شب کا مزا بھولتا نہیں آئے ہیں آج آپ میں یارب کہاں سے ہم دردِ فراق و رشکِ عدو تک گراں نہیں تنگ آگئے ہیں اپنے دلِ شادماں سے ہم جنت میں...
Top