غالب روزہ ۔ مرزا غالب

فرخ منظور

لائبریرین
روزہ
افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
 

جیہ

لائبریرین
لگتا ہے اس معاملے میں آپ غالب کے پیرو کار ہیں۔ روزہ رکھا بھی تو روزے کو بہلاتے ہوں گے:)
 

فاتح

لائبریرین
بھلا اس سے ‌ایمان کی تازگی سے کیا تعلق، محض‌سادہ سی منطق ہے۔
رگ غالبیت پھڑکی ہوگی جسے ایمان کی تازگی کہہ دیا فاتح۔
نظامی صاحب! ہمارے محسن قبلہ فرخ صاحب ہماری "بے ایمان" رمزوں سے واقف ہیں اور اسی واقفیت کی بنا پر مزاحاً عرض کیا تھا۔
ارے ہاں! "سادہ سی منطق" کے لطیفے پر ہنسی آ رہی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھلا اس سے ‌ایمان کی تازگی سے کیا تعلق، محض‌سادہ سی منطق ہے۔
رگ غالبیت پھڑکی ہوگی جسے ایمان کی تازگی کہہ دیا فاتح۔

نظامی آپ کے لئے ایک داغ کا اور ایک غالب کا شعر عرض ہے۔

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
:)
 

الف نظامی

لائبریرین
نظامی آپ کے لئے ایک داغ کا اور ایک غالب کا شعر عرض ہے۔

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
:)
اول تو کریم کا بابِ کرم بند ہو ہی نہیں‌سکتا۔
اور بالفرض‌ غالبِ خستہ کے ساتھ ایسا ہو جائے تو یہ کیوں‌نہیں‌کہتا
"تو کریم مطلق اور میں‌ فقیر ہوں، اگر تیرے در نہ آوں‌تو یہ بتا کہ کس کے در پر جاوں"
محی الدین عبد القادر جیلانی کے ایک فارسی شعر کا مفہوم
 

محمد وارث

لائبریرین
اس سے پہلے کہ بحث کا دائرہ وسیع ہو، اس کو سمیٹتے ہوئے:

غالب کیا، بہت سارے اُدبا اور شعرا کی، ایسی باتیں مشہور ہیں جن پر اسلامی عدالت میں تو مقدمہ چلایا جا سکتا ہے لیکن 'محفلِ ادب' میں نہیں :) جیسا کہ عام اصول ہے اور عام رواج ہے، اور جیسا کہ خود متشرع اہلِ دل بھی ان سے چشم پوشی کرتے ہیں، جوش نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ کسطرح ایک علی اعلان شرابی نے جب 'منبرِ امام' پر بیٹھ کر مرثیہ پڑھا تو لکھنؤ کے شیعہ علما میں کہرام مچ گیا اور وفد کی صورت جب لکھنؤ کے مجتہدِ اعظم کے پاس شکایت کیلیے گئے تو انہوں نے جوش کو گھر سے بلایا اور پھر استدعا کی میرے مصلے پر بیٹھ کر وہ مرثیہ پھر سے پڑھ دیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ "مٹی پاؤ" یا "اہلِ غالب" کیلیے ذوق کا ایک شعر

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس سے پہلے کہ بحث کا دائرہ وسیع ہو، اس کو سمیٹتے ہوئے:

غالب کیا، بہت سارے اُدبا اور شعرا کی، ایسی باتیں مشہور ہیں جن پر اسلامی عدالت میں تو مقدمہ چلایا جا سکتا ہے لیکن 'محفلِ ادب' میں نہیں :) جیسا کہ عام اصول ہے اور عام رواج ہے، اور جیسا کہ خود متشرع اہلِ دل بھی ان سے چشم پوشی کرتے ہیں، جوش نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ کسطرح ایک علی اعلان شرابی نے جب 'منبرِ امام' پر بیٹھ کر مرثیہ پڑھا تو لکھنؤ کے شیعہ علما میں کہرام مچ گیا اور وفد کی صورت جب لکھنؤ کے مجتہدِ اعظم کے پاس شکایت کیلیے گئے تو انہوں نے جوش کو گھر سے بلایا اور پھر استدعا کی میرے مصلے پر بیٹھ کر وہ مرثیہ پھر سے پڑھ دیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ "مٹی پاؤ" یا "اہلِ غالب" کیلیے ذوق کا ایک شعر

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

:)

حضور ایسے ہنگامے تو ہوتے رہیں گے کہ یہی زندگی کی اساس ہیں۔
اقبال نے کہا تھا۔
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!

اور بقول غالب کے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

اور پھر اقبال یاد آگیا

اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟

:)
 
Top