جدید غزل

  1. فرخ منظور

    یوں تو میں شام سے کچھ پہلے ہی گھر جاتا ہوں - پرویز اختر

    یوں تو میں شام سے کچھ پہلے ہی گھر جاتا ہوں گھر میں ہوتے ہوئے پر جانے کدھر جاتا ہوں میرے بچّوں کے تحفظ کی ضمانت جو نہیں نام قاتل کا بتاتے ہوئے ڈر جاتا ہوں میری اُ نگلی نہیں پکڑے ہوئے کوئی پھرکیوں میں کھلونوں کی دکانوں پہ ٹھہر جاتا ہوں مجھ سے رسماً بھی کوئی بات نہیں کرتا ہے خالی...
  2. فرخ منظور

    اسی ڈر سے نہیں‌دونوں ہوئے اِک بار جدا - پرویز اختر

    اسی ڈر سے نہیں‌دونوں ہوئے اِک بار جدا کیا بنے گا جو ہوئے ناؤ سے پتوار جدا یہی بہتر ہے کہ مضبوط ہوں رشتے ورنہ کون بچ سکتا ہے گر چھت سے ہو دیوار جدا پانیوں سے تھا گزر میرا، ہوا سے تیرا کیا عجب ہے جو رہی دونوں کی رفتار جدا گھر کا دروازہ مقفّل بھی نہیں‌ کرکے گیا اُس کے جانے کا ارادہ ہی...
  3. فرخ منظور

    شور قدموں کا پہنچ جاتا ہے دروازے تک - پرویز اختر

    شور قدموں کا پہنچ جاتا ہے دروازے تک مجھ سے کچھ پہلے ہی وہ آتا ہے دروازے تک یوں بھی ہوتا ہے کہ جب لمبے سفر پر نکلوں ہر قدم پر کوئی سمجھاتا ہے دروازے تک کھٹکھٹائے کوئی دروازہ اگر رات گئے میرا دل صحن سے گھبراتا ہے دروازے تک جانی پہچانی سی دستک میں کشش ہے کتنی آدمی کھنچتا چلا آتا ہے...
  4. فرخ منظور

    ہم میں رنجش تھی وہ حیران سا کیوں لگتا تھا - پرویز اختر

    ہم میں رنجش تھی وہ حیران سا کیوں لگتا تھا رات بھر بیٹا پریشان سا کیوں لگتا تھا دن پھرے ہیں جو ہمارے تو خیال آیا ہے آشنا ہو کے وہ انجان سا سا کیوں لگتا تھا تیز قدموں سے ہی کیوں چلنا پڑا گھر کی طرف جسم اپنا مجھے بے جان سا کیوں لگتا تھا خواب میں لینے کو جب آئے تھے مرحوم احباب اپنے مر...
  5. فرخ منظور

    اسی لیے تو ہر اک ہم زبان اُس کا تھا - پرویز اختر

    اسی لیے تو ہر اک ہم زبان اُس کا تھا کہ گاؤں میں جو تھا پختہ مکان، اُس کا تھا اب اس کے حکم پہ بھی راستے بدلنے تھے کہ ناؤ میری تھی اور بادبان اُس کا تھا جبھی تو چھاؤں میں اِک دھوپ سی تمازت تھی کہ میرے سر پہ جو تھا سائبان، اُس کا تھا بتاؤ بچوں کو کالی کریں‌ نہ دیواریں وہ کہہ بھی سکتا...
  6. فرخ منظور

    پہلے بٹھا دیے گئے پہرے زبان پر - پرویز اختر

    پہلے بٹھا دیے گئے پہرے زبان پر پھر دی گئی سزا مجھے میرے بیان پر کچھ اور بات ہو یہ کوئی حادثہ نہ ہو لوگوں کا اِک ہجوم ہے میرے مکان پر پھرتا ہوں سر پہ ہاتھ رکھے تیز دھوپ میں کرتا ہوں اکتفا میں اِسی سائبان پر بچّوں سے کچھ چھپی تو نہیں میری حیثیت لے کر نہ جائیں گے کسی اونچی دکان پر...
  7. فرخ منظور

    خدشہ شکار ہونے کا رہتا ہے دھیان میں - پرویز اختر

    خدشہ شکار ہونے کا رہتا ہے دھیان میں تنہا پرندہ اڑتا نہیں‌ آسمان میں کچھ اتنے فاصلے ہیں‌ مکینوں کے درمیاں دیواریں کھینچنی نہ پڑیں گی مکان میں ڈر تھا کہ پھٹ نہ جائے ہوا کے دباؤ سے دو ایک چھید رکھنے پڑے بادبان میں پھر یوں کیا کہ خود کہ نشانہ بنا لیا باقی بچا تھا ایک ہی ناوک کمان میں...
  8. فرخ منظور

    تحفظ کا ٹھکانہ پُر خطر کیوں لگ رہا ہے - پرویز اختر

    تحفظ کا ٹھکانہ پُر خطر کیوں لگ رہا ہے نہ جانے اپنے گھر جانے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے اگر دیکھوں تو کل تک تھا جہاں اب بھی وہیں ہوں مگر سوچوں تو طے ہوتا سفر کیوں لگ رہا ہے وہ باہر قفل ڈالے گھر کے اندر بند کیوں ہے اُسے باہر نکل آنے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے وہی اس وارداتِ قتل کا ہے عینی شاہد...
  9. فرخ منظور

    رات بھر لکھا گیا شہر کی دیواروں پر - پرویز اختر

    رات بھر لکھا گیا شہر کی دیواروں پر اگلے دن کچھ بھی نہ تھا شہر کی دیواروں پر وہ بھی دور آئے کہ ظالم کو عدالت سے ملے لوگ لکھیں‌ جو سزا شہر کی دیواروں پر خلقتِ شہر ترے بارے میں کہا کہتی ہے اِک نظر ڈال ذرا شہر کی دیواروں پر جس کو اخبار نہیں مصلحتاً چھاپ سکے جابجا ہم نے پڑھا شہر کی...
  10. فرخ منظور

    مری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں - پرویز اختر

    مری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں مرا جرم صرف یہی تو تھا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لیے ہوئے کئی لوگ تھے مجھے اپنا آپ عجب لگا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنی تھیں قریب سے نہیں چاند تارے ملے تو کیا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں...
  11. ایم اے راجا

    محسن نقوی غزلِ محسن نقوی - اب کے یوں بھی تری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے

    اب کے یو ں بھی تری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے رنگ پھوٹے، کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے سینہِ گل جہاں نکہت بھی گراں ٹھہری تھی تیر بن کر وہاں سورج کی کرن ٹوٹی ہے دِل شکسہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن اب کے یوں ہیکہ ہراک شاخِ بدن ٹوٹی ہے...
Top