فیض

  1. فرخ منظور

    فیض بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے ۔ فیض احمد فیض

    بے بسی کا کوئی درماں نہیں کرنے دیتے اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے دل کو صد لخت کیا سینے کو صد پارہ کیا اور ہمیں چاک گریباں نہیں کرنے دیتے ان کو اسلام کے لٹ جانے کا ڈر اتنا ہے اب وہ کافر کو مسلماں نہیں کرنے دیتے دل میں وہ آگ فروزاں ہے عدو جس کا بیاں کوئی مضموں کسی عنواں نہیں‌کرنے...
  2. فرخ منظور

    فیض پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے ۔ فیض احمد فیض

    پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے یا...
  3. فرخ منظور

    فیض آج شب کوئی نہیں ہے ۔ فیض احمد فیض

    آج شب کوئی نہیں ہے آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی اور مکیں کوئی نہیں ہے، آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے "کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت" کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں کوئی نہیں...
  4. فرخ منظور

    فیض جو میرا تمہارا رشتہ ہے ۔ فیض احمد فیض

    جو میرا تمہارا رشتہ ہے میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل و دردِ فراق مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہمدمِ مہ و سال اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے "گزر...
  5. فرخ منظور

    فیض جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم ۔ فیض احمد فیض

    جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی...
  6. فرخ منظور

    فیض نذرِ مولانا حسرت موہانی ۔ فیض احمد فیض

    نذرِ مولانا حسرت موہانی مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے کیا کچھ نہ ملا ہے جو کبھی تجھ سے ملے گا اب تیرے نہ ملنے کی شکایت نہ کریں گے شب بیت گئی ہے تو گزر جائے گا دن بھی ہر لحظہ جو گزری وہ حکایت نہ کریں گے یہ فقر دلِ زار کا عوضانہ بہت ہے شاہی نہیں...
  7. فرخ منظور

    فیض یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔ فیض احمد فیض

    یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔ نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں پیدا کسی کے حسن میں شمشیرِ آفتاب کا حسن نگاہ جس سے ملاؤ تو آنکھ دکھنے لگے کسی ادا میں ادائے خرامِ بادِ صبا جسے خیال میں لاؤ تو دل سلگنے لگے نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں باقی جہاں میں بزمِ گہِ حسن و عشق کا میلا بنائے لطف و محبت،...
  8. فرخ منظور

    فیض ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول ۔ فیض

    ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول آج پھر درد و غم کے دھاگے میں ہم پرو کر ترے خیال کے پھول ترکِ الفت کے دشت سے چن کر آشنائی کے ماہ و سال کے پھول تیری دہلیز پر سجا آئے پھر تری یاد پر چڑھا آئے باندھ کر آرزو کے پلے میں ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
  9. فرخ منظور

    فیض دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت ۔ فیض احمد فیض

    دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے حلقہ کیے...
  10. فرخ منظور

    فیض اس وقت تو یُوں لگتا ہے ۔ فیض احمد فیض

    اس وقت تو یُوں لگتا ہے اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید اب آ کے...
  11. فرخ منظور

    فیض گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا ۔ فیض احمد فیض

    گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو...
  12. فرخ منظور

    فیض ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ۔ فیض احمد فیض

    ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ہم جیتیں گے حقّا ہم اِک دن جیتیں گے بالآخر اِک دن جیتیں گے کیا خوف ز یلغارِ اعداء ہے سینہ سپر ہر غازی کا کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا صف بستہ ہیں ارواح الشہدا ڈر کاہے کا! ہم جیتیں گے حقّا ہم اِک دن جیتیں گے قد جاء الحق و زَہَق الباطِل فرمودۂ ربِّ اکبر ہے جنت اپنے...
  13. فرخ منظور

    فیض ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے ۔ فیض احمد فیض

    ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے بیروت نگارِ بزمِ جہاں بیروت بدیلِ باغِ جناں بچوں کی ہنستی آنکھوں کے جو آئنے چکنا چور ہوئے اب ان کے ستاروں کی لَو سے اس شہر کی راتیں روشن ہیں اور رُخشاں ہے ارضِ لبنان بیروت نگارِ بزمِ جہاں جو چہرے لہو کے غازے کی زینت سے سوا پُرنور ہوئی اب ان کے رنگیں پرتو سے اس شہر...
  14. فرخ منظور

    فیض احمد فیض کی چند نایاب تصاویر

    فیض احمد فیض کا ایک نایاب خط جب ان کی تنخواہ ایک ہزار روپیہ ماہور تھی۔
  15. فرخ منظور

    فیض میجر اسحاق کی یاد میں ۔ فیض احمد فیض

    میجر اسحاق کی یاد میں لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہوا خالی باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور ہر خار رہِ دشت وطن کا ہے سوالی کب...
  16. فرخ منظور

    فیض نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی ۔ فیض احمد فیض

    نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی دیارِ غیر میں محرم...
  17. فرخ منظور

    فیض عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا ۔ فیض احمد فیض

    عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے رشک کرتے رہے اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے لوٹ کر آ کے دیکھا...
  18. فرخ منظور

    فیض اٹھ اُتاں نوں جٹّا ۔ فیض احمد فیض

    اٹھ اُتاں نوں جٹّا مردا کیوں جائیں بھولیا! تُوں جگ دا ان داتا تیری باندی دھرتی ماتا توں جگ دا پالن ہار تے مردا کیوں جائیں اٹھ اُتاں نوں جٹّا مردا کیوں جائیں جرنل، کرنل، صوبیدار ڈپٹی، ڈی سی، تھانیدار سارے تیرا دتّا کھاون توں جے نہ بیجیں، توں جے نہ گاہویں بھُکھّے، بھانے سب مر جاون ایہہ چاکر توں...
  19. فرخ منظور

    فیض گیت ۔ جلنے لگیں یادوں کی چتائیں ۔ فیض احمد فیض

    گیت جلنے لگیں یادوں کی چتائیں آؤ کوئی بَیت بنائیں جن کی رہ تکتے تکے جُگ بیتے چاہے وہ آئیں یا نہیں آئیں آنکھیں موند کے نِت پل دیکھیں آنکھوں میں اُن کی پرچھائیں اپنے دردوں کا مُکٹ پہن کر بے دردوں کے سامنے جائیں جب رونا آوے مسکائیں جب دل ٹوٹے دیپ جلائیں پریم کتھا کا انت نہ کوئی کتنی بار اسے دھرائیں...
  20. فرخ منظور

    فیض غم بہ دل، شکر بہ لب، مست و غزل خواں چلیے ۔ فیض احمد فیض

    غم بہ دل، شکر بہ لب، مست و غزل خواں چلیے جب تلک ساتھ ترے عمرِ گریزاں چلیے رحمتِ حق سے جو اس سَمت کبھی راہ ملے سوئے جنّت بھی براہِ رہِ جاناں چلیے نذر مانگے جو گلستاں سے خداوندِ جہاں ساغرِ مے میں لیے خونِ بہاراں چلیے جب ستانے لگے بے رنگیِ دیوارِ جہاں نقش کرنے کوئی تصویرِ حسیناں چلیے کچھ...
Top