اختر شیرانی

  1. فرخ منظور

    اختر شیرانی اے دل آ ، اپنے دلِ آزار کو پھر یاد کریں! ۔ اختر شیرانی

    اے دل آ ، اپنے دلِ آزار کو پھر یاد کریں! بھولنے والے جفا کار کو پھر یاد کریں! ایک اک پھول کو آنکھوں سے لگا کر روئیں اُس بہارِ گُل و گلزار کو پھر یاد کریں! دیدۂ نرگسِ بیمار کو کر دیں پُر آب ساغرِ دیدۂ سرشار کو پھر یاد کریں چاند کی کرنوں...
  2. فرخ منظور

    اختر شیرانی وہ فتنہ کار، زیبِ شبستاں ہے آج کل ۔ اختر شیرانی

    وہ فتنہ کار، زیبِ شبستاں ہے آج کل کیوں محوِ خواب ، شورشِ دوراں ہے آج کل ہے خوفِ محتسب بھی، خیالِ حساب بھی لاہور گرچہ جنّتِ رنداں ہے آج کل دنیا نے گو جلا کے ہمیں خاک کر دیا پھر بھی دماغِ عشق، گلستاں ہے آج کل پھر عقدۂ حیات و...
  3. فرخ منظور

    اختر شیرانی جب سے دیکھا ہے ترا رُوئے بہار آلودہ ۔ اختر شیرانی

    جب سے دیکھا ہے ترا رُوئے بہار آلودہ چشمِ ہستی نظر آتی ہے خمار آلودہ رنگ لایا ہے کسی بلبلِ دیوانہ کا خون سرخیِ گل سے ہے دامانِ بہار آلودہ یاس وحسرت کاسماں کیوں ہے فضا پر طاری غم سے ہے کیوں چمنِ لیل و نہار آلودہ روئے رنگیں پہ پریشاں ہیں سنہری زلفیں جیسے ہو اِک گلِ...
  4. فرخ منظور

    اختر شیرانی اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے؟ ۔ اختر شیرانی

    اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے؟ وہ عمر کیا ہوئی ، وہ زمانے کدھر گئے؟ ویراں ہیں صحن و باغ بہاروں کو کیا ہوا وہ بلبلیں کہاں وہ ترانے کدھر گئے؟ تھے وہ بھی کیا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم وہ دل کہاں ہیں اب وہ زمانے کدھر گئے؟ ہے نجد میں سکوت ،...
  5. فرخ منظور

    اختر شیرانی دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے! ۔ اختر شیرانی

    دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے! مر جائیں گے لیکن تجھے رسوانہ کریں گے! قربان کریں گے کبھی دل، جاں کبھی صدقے تم اپنا بنا لو گی تو کیا کیا نہ کریں گے؟ گستاخ نگاہوں سے اگر تم کو گلہ ہے ہم دور سے بھی اب تمہیں دیکھا نہ کریں گے اخترؔ یہ گھٹائیں ، یہ ہوائیں، یہ فضائیں...
  6. فرخ منظور

    اختر شیرانی میں اپنے شوق کی دُھن میں دُعا بھی بُھول گیا ۔ اختر شیرانی

    میں اپنے شوق کی دُھن میں دُعا بھی بُھول گیا وہ پاس آئے تو نامِ خدا بھی بھول گیا اب اِس سے بڑھ کے بھی کچھ اور بے کسی ہوگی! الہٰی، اب تو مرا دل دعا بھی بھول گیا اُمید کیا ہو کسی سے وفا شعاری کی وفا کہاں کہ زمانہ جفا بھی بھول گیا خبر لے کون ، محبت...
  7. فرخ منظور

    اختر شیرانی بھلاؤ گے بہت ، لیکن تمہیں ہم یاد آئیں گے ۔ اختر شیرانی

    بھلاؤ گے بہت ، لیکن تمہیں ہم یاد آئیں گے بہت یاد آئیں گے پھر بھی بہت کم یاد آئیں گے! گھٹا چھا جائے گی دل پر غبارِ رنج و حسرت کی ہمیں جب بھی ترے گیسوئے برہم یاد آئیں گے! بُھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا! بہت پچھتاؤ گے جس وقت ، کل ہم یاد آئیں گے...
  8. فرخ منظور

    اختر شیرانی خوشبو اُڑا کے لائی نہ زُلفِ نگار سے ۔ اختر شیرانی

    خوشبو اُڑا کے لائی نہ زُلفِ نگار سے مجھ کو شکایتیں ہیں نسیمِ بہار سے غمگین ہو نہ کوئی غمِ روزگار سے اک دن بدل ہی دیں گے خزاں کو بہارسے ملتی نجات اگر غمِ لیل و نہار سے سنتے کبھی خزاں کی کہانی بہار سے شبنم نہیں ہے، خوفِ خزاں سے حسین پھول رو رو...
  9. فرخ منظور

    اختر شیرانی یوں تو کس پھول سے رنگت نہ گئی بُو نہ گئی ۔ اختر شیرانی

    یوں تو کس پھول سے رنگت نہ گئی بُو نہ گئی اے محبت! مرے پہلو سے مگر تُو نہ گئی مٹ چلے میری اُمیدوں کی طرح حرف مگر آج تک تیرے خطوں سے تیری خوشبو نہ گئی فصلِ گل ختم ہوئی، رنگِ سمن خواب ہوا میری آنکھوں سے مگر میری سمن رُو نہ گئی کب بہاروں پہ ترے رنگ کا سایہ...
  10. فرخ منظور

    اختر شیرانی ہے نشاطِ لالہ و گل میں کیا، ہے بہارِ سرو و سمن میں کیا ۔ اختر شیرانی

    ہے نشاطِ لالہ و گل میں کیا، ہے بہارِ سرو و سمن میں کیا مجھے کب دماغ ہے سیر کا، میں کروں گا جا کےچمن میں کیا؟ مرا واسطہ ہے خطا سے کیا، مرا کام باغِ ختن میں کیا؟ وہ شمیمِ روح فزا نہیں ترے گیسوؤں کی شکن میں کیا؟ ہمہ فتنہ و ہمہ فتنہ گر ، ہمہ تیرہ دل ، ہمہ خیرہ سر ہے یہ...
  11. فرخ منظور

    اختر شیرانی برکھا رُت ۔ اختر شیرانی

    برکھا رُت گھٹاؤں کی نیل فام پریاں ، افق پہ دھومیں مچا رہی ہیں ہواؤں میں تھرتھرا رہی ہیں، فضاؤں کو گُدگُدا رہی ہیں چمن شگفتہ ، دمن شگفتہ ، گلاب خنداں ، سمن شگفتہ بنفشہ و نسترن شگفتہ ہیں، پتّیاں مسکرا رہی ہیں یہ مینہ کےقطرے مچل رہے ہیں،کہ ننھےسیّارے ڈھل رہے ہیں اُفق...
  12. فرخ منظور

    اختر شیرانی مُجھے اپنی پستی کی شرم ہے تِری رفعتوں کا خیال ہے ۔ اختر شیرانی

    مُجھے اپنی پستی کی شرم ہے تِری رفعتوں کا خیال ہے مگر اپنے دل کو میں کیا کروں، اِسے پھر بھی شوقِ وصال ہے اِس ادا سے کون یہ جلوہ گر سرِ بزمِ حُسنِ خیال ہے جو نفس ہے مستِ بہار ہے، جو نظر ہے غرقِ جمال ہے اُنہیں ضد ہے عرضِ وصال سے مجھے شوقِ عرضِ وصال ہے وہی اب بھی اُن کا جواب ہے، وہی اب بھی میرا...
  13. طارق شاہ

    اختر شیرانی ::::: جو بَہاروں میں نِہاں رنگِ خزاں دیکھتے ہیں ::::: Akhtar Shirani

    غزل جو بَہاروں میں نِہاں رنگِ خزاں دیکھتے ہیں دیدۂ دل سے، وہی سیرِ جہاں دیکھتے ہیں ایک پردہ ہے غموں کا، جسے کہتے ہیں خوشی! ہم تبسّم میں نہاں، اشکِ رواں دیکھتے ہیں دیکھتے دیکھتے، کیا رنگ جہاں نے بدلے دیدۂ اشک سے، نیرنگِ جہاں دیکھتے ہیں رات ہی رات کی مہماں تھی بہارِ رنگیں پھر وہی صبح، وہی...
  14. فرخ منظور

    اختر شیرانی کیا کہہ گئی کسی کی نظر کُچھ نہ پُوچھیے ۔ اختر شیرانی

    غزل کیا کہہ گئی کسی کی نظر کُچھ نہ پُوچھیے کیا کچھ ہوا ہے دل پہ اثر کچھ نہ پُوچھیے جُھکتی ہوئی نظر سے وہ اُٹھتا ہوا سا عشق اُف وہ نظر، وہ عشق مگر کُچھ نہ پُوچھیے وہ دیکھنا کسی کا کنکھیوں سے بار بار وہ بار بار اُس کا اثر کُچھ نہ پُوچھیے رو رو کے کس طرح سے کٹی رات، کیا کہیں مر مر کے کیسے کی ہے...
  15. فرخ منظور

    اختر شیرانی رخصتِ دائمی ۔ اختر شیرانی

    رخصتِ دائمی قرار چھین لیا بے قرار چھوڑ گئے بہار لے گئے ، یادِ بہار چھوڑ گئے ہماری چشمِ حزیں کا خیال کچھ نہ کیا وہ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدت سے اسی کو آج وہ بیگانہ وار چھوڑ گئے رگوں میں اِک...
  16. فرخ منظور

    اختر شیرانی بیوفائیِ زمانہ ۔ اختر شیرانی

    بیوفائیِ زمانہ شکستہ دلوں سے منار اک بنا دیں اور اُس پر سے بزمِ جہاں میں صدا دیں کہ نوواردانِ بساطِ زمانہ! یہاں آکے درسِ محبت بھلا دیں دماغوں سے فکرِ وفا محو کر دیں دلوں سے صداقت کے جذبے مٹا دیں یہ باغ ایسے پھولوں کے قابل نہیں ہے خدارا امیدوں کی شمعیں بجھا دیں خدائی ہے محروم صدق و صفا سے خدائی...
  17. طارق شاہ

    اختر شیرانی ::::: وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجیے ::::: Akhtar Shirani

    غزلِ وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجیے رات دِن صُورت کو دیکھا کیجیے چاندنی راتوں میں اِک اِک پُھول کو بے خودی کہتی ہے سجدہ کیجیے جو تمنّا، بر نہ آئے عُمر بھر عُمر بھر اُس کی تمنّا کیجیے عِشق کی رنگینیوں میں ڈُوب کر چاندنی راتوں میں رویا کیجیے پُوچھ بیٹھے ہیں ہمارا حال وہ بے خوُدی توُ ہی...
  18. فرخ منظور

    اختر شیرانی اُس مہ جبیں سے آج مُلاقات ہو گئی ۔ اختر شیرانی

    غزل اُس مہ جبیں سے آج مُلاقات ہو گئی بے درد آسمان! یہ کیا بات ہو گئی؟ آوارگانِ عشق کا مسکن نہ پوچھیے پڑ رہتے ہیں وہیں پہ جہاں رات ہو گئی ذکرِ شبِ وصال ہو کیا، قِصّہ مختصر جس بات سے وہ ڈرتے تھے وہ بات ہو گئی مسجد کو ہم چلے گئے مستی میں بُھول کر ہم سے خطا یہ پیرِ خرابات ہو گئی! پچھلے غموں کا...
  19. ع

    اختر شیرانی نسیم کوئے یار آئے نہ آئے

    نسیم کوئے یار آئے نہ آئے مرے دل کو قرار آئے نہ آئے خزاں ہی سے نہ کیوں ہم دل لگالیں خدا جانے بہار آئے نہ آئے کیا ہے آنے کا وعدہ تو اس نے مرے پروردگار ، آئے نہ آئے اٹھا ساغر، پلادے پھول ساقی! کہ پھر ابر بہار آئے نہ آئے مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے
  20. ا

    اگر اے نسیمِ سحر ترا! ہو گزر دیار ِحجاز میں --- اختر شیرانی

    اگر اے نسیمِ سحر ترا! ہو گزر دیار ِحجاز میں مری چشمِ تر کا سلام کہنا حضورِ بندہ نواز میں تمہیں حدِ عقل نہ پاسکی فقط اتنا حال بتا سکی کہ تم ایک جلوہء راز تھے جو نہاں ہے رنگِ مجاز میں نہ جہاں میں راحتِ جاں ملی ، نہ متاعِ امن و اماں ملی جو دوائے دردِ نہاں ملی ، تو ملی بہشتِ حجاز میں عجب اک...
Top