اختر شیرانی جب سے دیکھا ہے ترا رُوئے بہار آلودہ ۔ اختر شیرانی

فرخ منظور

لائبریرین
جب سے دیکھا ہے ترا رُوئے بہار آلودہ
چشمِ ہستی نظر آتی ہے خمار آلودہ

رنگ لایا ہے کسی بلبلِ دیوانہ کا خون
سرخیِ گل سے ہے دامانِ بہار آلودہ

یاس وحسرت کاسماں کیوں ہے فضا پر طاری
غم سے ہے کیوں چمنِ لیل و نہار آلودہ

روئے رنگیں پہ پریشاں ہیں سنہری زلفیں
جیسے ہو اِک گلِ شاداب ، غبار آلودہ

شمعِ امید کی کرنیں ہیں پریشاں اخترؔ
دل کا آئینہ کچھ ایسا ہے غبار آلودہ

(اخترؔ شیرانی)​
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
دوسرے شعر میں آلودہ کی ہ ٹائپ ہونے سے رہ گئی ہے ۔

تیسرے شعر ( خودکلامی ہے شاید) کے دوسرے مصرعے میں
کسرہ کی کمی سے معنوی اختلاف پیدا ہو رہا ہے
کو بھی اگر درست کردیں گے تو کیا بات ہے

غم سے ہے کیوں چمن ِ لیل و نہار آلودہ

:):)
 

فرخ منظور

لائبریرین
دوسرے شعر میں آلودہ کی ہ ٹائپ ہونے سے رہ گئی ہے ۔

تیسرے شعر ( خودکلامی ہے شاید) کے دوسرے مصرعے میں
کسرہ کی کمی سے معنوی اختلاف پیدا ہو رہا ہے
کو بھی اگر درست کردیں گے تو کیا بات ہے

غم سے ہے کیوں چمن ِ لیل و نہار آلودہ

:):)

نشاندہی کا شکریہ۔ درستی کر دی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top