ابنِ رضا

  1. آوازِ دوست

    یوں بے خبر نہ ہو

    شعلوں پہ آشیاں ہے، یوں بے خبر نہ ہو وہ اہلِ دِل ہی کیا جو صاحبِ نظر نہ ہو جو نِکلے نہ کوئی سورج میری آہِ نیم شب سے پھر جو کبھی سحر ہو مجھے ایسی سحر نہ ہو دشتِ جُنوں میں کھِلتے ہیں گُل اہلِ جُنوں کے واسطے بھلے راہیں لہو لہو ہوں اور کوئی شجر نہ ہو ہر سو مقتل کو لیے جائے ہے راہِ زندگی یہاں تیری...
  2. ابن رضا

    دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے

    عرض کیا ہے دامِ ظلمت سے مرے دل کو چھڑایا جائے کوئی مہتاب لبِ بام بلایا جائے حسرتِ دید کا اتنا سا تقاضا ہے فقط رُخ سے چلمن کو بہر طور ہٹایا جائے اُن کا یوں صرفِ نظر کرنا سر آنکھوں پر ہے ہاں مگر اس کا سبب بھی تو بتایا جائے ٹوٹ جائے نہ کہیں عزمِ شکیبائی مرا کب تلک آپ کو احساس دلایا جائے؟ وہ...
  3. ابن رضا

    دنیا میں رہو لیکن ، دنیا نہ رہے تم میں

    قطعہ دنیا میں رہو لیکن ، دنیا نہ رہے تم میں یہ قول ِعلی بھی ہے ،اور عقل بھی کہتی ہے جو موج کے اوپر ہے ، وہ ناؤ سلامت ہے پانی سے جو بھر جائے ، وہ ڈوب کے رہتی ہے براے توجہ استادِ محترم محمد یعقوب آسی و جناب الف عین صاحب
  4. ابن رضا

    حسیؓن عالی شان ہیں، حسیؓن پاسبان ہیں

    ہدیہِ عقیدت جو کربلا کے دشت میں ہوے لہو لہان ہیں حسیؓن عالی شان ہیں، حسیؓن پاسبان ہیں نواسہِ رسول ﷺ ہیں، وہ گوہرِ بتول ؓ ہیں وہ شاخِ زعفران ہیں، خدا کا ارمغان ہیں حسیؓن کے حَسین تن پہ تیغِ بے دریغ سے لگا رہے ہیں زخم جو، یہ کون دشمنان ہیں حسیؓن کے لہو سے نم ہوے ہیں ریگ زار جو جبینِ آسمان...
  5. ابن رضا

    کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے

    روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں سبھی زیست کے در آپ کا ہم پہ کُھلا حجلہِ آغوش رہے وائے قسمت کہ غمِ ہجر سے فرصت نہ ملی وصل کے لمحے سدا ہم سے ہیں روپوش رہے زندگی بیت گئی اُن سے وفائیں کرتے دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے کیف...
  6. ابن رضا

    مانا کہ اب وہ پہلی سی فرصت نہیں اُسے

    مانا کہ اب وہ پہلی سی فرصت نہیں اُسے کیسے یہ مان لوں کہ محبت نہیں اُسے تیور بتا رہے ہیں سبھی حالِ دل مجھے لفظوں کے پیرہن کی ضرورت نہیں اُسے غمگین بھی ہے ترکِ مراسم پہ وہ مگر لہجے کی تلخیوں پہ ندامت نہیں اُسے رہتا ہے التفات میں وہ دوستوں کے گم ایسے میں دشمنوں کی ضرورت نہیں اُسے کرتا وہ کیا...
  7. ابن رضا

    دل ہمارا ہے غم سرا یارو

    دل ہمارا ہے غم سرا یارو زندگی ایک سانحہ یارو کیا بتائیں کہ کیا ہوا یارو لے چلو سوئے مے کدہ یارو حرفِ شکوہ نہ لب پہ لائیں گے کر لیا ہم نے فیصلہ یارو غم کی شدت کہ جان لیوا تھی ہوگئی لطف آشنا یارو درد سے ہم نے دوستی کرلی اب نہیں چاہیے دوا یارو اک تمنا نے سر اٹھایا کیا زندگی بن گئی سزا یارو...
  8. ابن رضا

    تھک گئی آہ مری عرش پہ دیتے دستک

    تھک گئی آہ مِری عرش پہ دیتے دستک بابِ ایجابِ دُعا مجھ پہ کُھلے گا کب تک؟ اَوَّل اَوَّل تو مری آنکھ تھی ساون ساون محوِ گریہ ہے مرے حال پہ اب چشمِ فلک آزمائش تھی مِرے ضبط کی مقصود جسے آ کے رکھے وہی زخموں پہ مِرے مشتِ نمک لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ خوش باش ہوں میں رُخ پہ رہتی ہے تری یاد سے اک...
  9. ابن رضا

    بات جب حد سے گزر جائے گی

    بات جب حد سے گزر جائے گی مجھ پہ پھر اُس کی نظر جائے گی؟ کیا وہ آئے گا خزاؤں کے ساتھ؟ جب قبا گُل کی اُتر جائے گی؟ لوگ کہتے تھے غمِ الفت میں زندگی درد سے بھر جائے گی دیکھ پائے جو اُداسی بھی مجھے سانس اُس کی بھی ٹھہر جائے گی کیا خبر تھی کہ سمندر کی لہر پاس آنے پہ بپھر جائے گی ساعتِ وصل...
  10. ابن رضا

    تحریرِ مقدر پہ قناعت نہیں کرتا

    چڑھ جاتا ہے وہ دار پہ ہنستے ہوئے لیکن جو مردِ قلندر ہو سماجت نہیں کرتا تعبیر نہیں ملتی کسی خواب کی اس کو جو وقت کے گھوڑے کی حفاظت نہیں کرتا سستانے کو رک جائے جو بیچ سفر میں خرگوش وہ برگد کی زیارت نہیں کرتا ماتم ہی کیا جاتا ہے اخلاق پہ اس کے جو شخص برائی کی مذمت نہیں کرتا رکھتا ہو یقیں...
  11. ابن رضا

    دستِ آزر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے

    زندگی روز نیا مجھ سے تماشا مانگے اِک تہی دامن و بے حال سےکیا کیا مانگے دوست کرتے ہیں اِسے موجِ سمندر کے سپرد کشتیِ دل ہے کہ ہر آن کنارہ مانگے مدتیں بیت گئیں ہیں مجھے آزاد ہوئے حیف یہ خُوئے اَسیری ہے کہ آقا مانگے مجھ سا نادار نہیں جاتا ہے اس خوف سے گھر طفل بھوکا نہ کہیں پھر سے نوالہ مانگے...
  12. ابن رضا

    اے زیست تری راہ میں حائل تو نہیں ہوں!

    ہرچند عنایات کے قابل تو نہیں ہوں اے زیست تری راہ میں حائل تو نہیں ہوں مانا کہ خطاوارِ محبت ہوں میں لیکن اے چشمِ تماشا کوئی قاتل تو نہیں ہوں ہرگام پہ مل جائیں گے خورشید تجھے اور میں ذَرَّۂ نا چِیز ہوں کامل تو نہیں ہوں وہ ترکِ تعلق میں پہل کیوں نہیں کرتا ہر بات سمجھتا ہوں میں جاہل تو نہیں ہوں...
  13. ابن رضا

    بھول جاتا ہے بشر نعمتیں اکثر

    یاد رکھتا ہے فقط زحمتیں اکثر بھول جاتا ہے بشر نعمتیں اکثر
  14. ابن رضا

    منصبِ نعت گوئی کہاں دوستو!!

    :start: گل ہائے مدحت منصبِ نعت گوئی کہاں دوستو!! میری اوقات ایسی کہاں دوستو!! سرورِ دو جہاں:pbuh: کو بیاں کر سکیں جان لفظوں میں ایسی کہاں دوستو!! تیرگی سے نجات آپ:pbuh: ہی کے طفیل روشنی بخت میں تھی کہاں دوستو!! آپ :pbuh:پر ہیں ہماری نمازیں نثار آپ :pbuh:جیسا نمازی کہاں دوستو!! امتی کے...
  15. ابن رضا

    شیریں نہ دہن ہو تو محبت کی دوا دو

    شیریں نہ دَہَن ہو تو محبت کی دوا دو تاثیر اگر کم ہو تو مقدار بڑھا دو تازہ کرو شعلہء خودی پھر سے لہو میں اس قوم کی سوئی ہوئی تقدیر جگا دو شرمندۂ تعبیرہو پھر خوابِ اخوت اُجڑے ہوئے گلشن میں نئے پھول کھلا دو ہے صحت و تعلیم کا حق سب کا برابر پھر حاکم و محکوم کے سب فرق مٹا دو مظلوم کی فریاد پہ...
  16. ابن رضا

    بدنصیبی نے پلٹ کر نہیں دیکھا مجھ کو

    :start: گل ہائے مدحت یاد آتا ہے وہ پُر نور نظارہ مجھ کو پھر بُلا لیجے مدینےمرے آقا:pbuh: مجھ کو زندگی بھر نہ سرور ایسا کہیں اور آیا درِ مدنی میں ہےجس قدر آیا مجھ کو درد جھولی میں شب وروز مری رہتے تھے شاہِ بطحا :pbuh:سے ملا سب کا مداوا مجھ کو چوم لی فرطِ محبت سے جو میں نے جالی پھر...
  17. ابن رضا

    درد ہے تو چارہ گر بھی چاہیے

    درد ہے تو چارہ گر بھی چاہیے اس سفر میں ہم سفر بھی چاہیے نعرہ ءمستانہ بھی کیجے بلند اور بصیرت کی نظر بھی چاہیے غازی ءگفتار دیکھے ہیں بہت رہنمائے معتبر بھی چاہیے دعوی ءحق ہی فقط کافی نہیں بات کرنے کا ہنر بھی چاہیے کارِ ہستی کو چلانے کے لیے سلسلہ ء خیر و شر بھی چاہیے اے تمنائے پذیرائی تجھے...
  18. ابن رضا

    خدا ہم سے روٹھا ہوا ہے !!!

    اے ارضِ وطن کے مکینو اخوت کا دم بھرنے والو یہ سیلِ رواں دیکھتے ہو؟ یہ آہ و فغاں دیکھتے ہو؟ یہ چشمِ فلک جو مسلسل زمیں پر ستم ڈھا رہی ہے ہر آفت مسلط ہوئی ہے بپا اک قیامت ہوئی ہے ہے ناں بات یہ سوچنے کی؟ کہ ایسا ہی کیوں ہو رہا ہے؟ خدا ہم سے روٹھا ہوا ہے !!! ستمبر ستم گر بنا ہے!!! ستمبر ستم ڈھا رہا ہے!!!
  19. ابن رضا

    درِ توبہ وہ در ہے جو ہمیشہ ہی کھُلا ہے

    برائے اصلاح اساتذہ کی نذر درِ توبہ وہ دَر ہے جو ہمیشہ ہی کھُلا ہے تعلق یہ نہ بندے کا خدا سے ٹوٹتا ہے کوئی جو گم شدہ اپنا اچانک مل گیا ہو خدا تائب کو یوں چشمِ کرم سے دیکھتا ہے ترازو کے جو اِک پلڑے میں عصیاں ہوں ہزاروں تو دوجے میں ندامت کا اِک آنسو ہی بڑا ہے دِلا دیتی ہے رِندوں کو رہائی نُطقِ...
  20. ابن رضا

    آو مل کر یہ بات سوچیں!!!

    نظم برائے اصلاح اساتذہ کی نذر آو مل کر یہ بات سوچیں جس ڈگر پر ہیں گامزن ہم راستہ کیا یہی ہے اپنا؟ ہم نے اب تک جو طے کیا ہے اِس سفر نے ہماری منزل دُور کی یا قریب کی ہے؟ اِس سفر کی صعوبتوں نے اور دُشوار، راستوں نے آبلے ہی دیے ہیں یا پھر حق شناسی کے لطف سے بھی دلوں کو آشنا کیا ہے؟ سوچنے کی...
Top