تھک گئی آہ مری عرش پہ دیتے دستک

ابن رضا

لائبریرین

تھک گئی آہ مِری عرش پہ دیتے دستک
بابِ ایجابِ دُعا مجھ پہ کُھلے گا کب تک؟

اَوَّل اَوَّل تو مری آنکھ تھی ساون ساون
محوِ گریہ ہے مرے حال پہ اب چشمِ فلک

آزمائش تھی مِرے ضبط کی مقصود جسے
آ کے رکھے وہی زخموں پہ مِرے مشتِ نمک

لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ خوش باش ہوں میں
رُخ پہ رہتی ہے تری یاد سے اک ایسی دمک

دشتِ دل درد کے پھولوں سے جو بھر جاتا ہے
تب کہیں جا کے رضا اٹھتی ہے شعروں سے مہک

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ ذرا ایک ایک کر کے
تھک گئی آہ مِری عرش پہ دیتے دستک
بابِ ایجابِ دُعا مجھ پہ کُھلے گا کب تک؟
۔۔یہاں ایطا نہیں ہو گیا مطلع میں؟
دوسرے مصرع میں محض ’کب؟‘ سے بات مکمل ہو جاتی ہے، ’کب تک‘ اضافی ہے

اَوَّل اَوَّل تو مری آنکھ تھی ساون ساون
محوِ گریہ ہے مرے حال پہ اب چشمِ فلک
÷÷درست

آزمائش تھی مِرے ضبط کی مقصود جسے
آ کے رکھے وہی زخموں پہ مِرے دستِ نمک
÷÷دستِ نمک؟؟؟ ہاں مشتِ نمک بہتر ہو گا۔

لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ خوش باش ہوں میں
رُخ پہ رہتی ہے تری یاد سے اک تاب و دمک
۔۔تاب فارسی، دمک ہندی۔ ان دونوں کا ملاپ نا ممکن۔
رخ پہ رہتی ہے تری یاد سے اک ایسی دمک÷چمک

دشتِ دل درد کے پھولوں سے ہے بھر جاتا جب
تب کہیں جا کے رضا اٹھتی ہے شعروں سے مہک
۔۔واہ خوبصورت بیانیہ کا شعر۔ بس ’ہے بھر جاتا جب‘ کا فقرہ ’جو بھر جاتا ہے‘ کر دیا جائے تو صاف اور رواں ہو جاتا ہے۔
 
Top