دستِ آزر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے

ابن رضا

لائبریرین

زندگی روز نیا مجھ سے تماشا مانگے
اِک تہی دامن و بے حال سےکیا کیا مانگے

دوست کرتے ہیں اِسے موجِ سمندر کے سپرد
کشتیِ دل ہے کہ ہر آن کنارہ مانگے

مدتیں بیت گئیں ہیں مجھے آزاد ہوئے
حیف یہ خُوئے اَسیری ہے کہ آقا مانگے

مجھ سا نادار نہیں جاتا ہے اس خوف سے گھر

طفل بھوکا نہ کہیں پھر سے نوالہ مانگے

عدل اتنا نہیں ارزاں ہے کہ بے دام ملے
جب ہی منصف کا ارادہ ہے کہ تحفہ مانگے


ایک مدت سے ہے ویران صنم خانہِ دل
دستِ آزر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے

 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ واہ واہ۔بہت خوب صورت۔ رضا بھائی ۔لطف آگیا پڑھ کر۔بہت عمدہ ۔
خُوِ ۔ کو خوئے لکھیں۔اگر چہ باندھیں خُوِ۔
بھوکا بچہ زیادہ بہترلگے گا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ۔

کیا ہی اچھی غزل ہے۔ واہ

بہت سی داد قبول کیجے ابن رضا بھائی ۔

اللہ کرے مشق سخن زورِ قلم تیز۔
 

ایوب ناطق

محفلین
خوب۔۔۔۔ داد قبول کیجیے۔۔
مطلع میں تہی داماں سے بہتر صورت تہی دامن ہو سکتی ہے کہ یہاں دامن کی تنگی کا اظہار مطلوب ہے کشادگی کا نہیں۔۔۔
خوئے اسیری آقا کی طالب ہے یا خوئے غلامی؟ خوئے اسیری کا تعلق قفس یا زندان کے ساتھ بہتر ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
’تہی داماں و‘ سے تقطیع میں بھی مسئلہ ہو جاتا ہے، اسقاط کی بجائے ’تہی دامن و‘ یقیناً بہتر ہے۔
پڑاہے خالی صنم خانہِ دل جب سے رضا
دستِ آذر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے
دوسرا مصرع بے پناہ ہے، لیکن پہلا رواں نہیں۔ ’پڑا ہے‘ کی وجہ سے۔ اس مصرع کو بدل دو۔
غزل تو بہت خوب ہے۔ واہ!!
 

ابن رضا

لائبریرین
سبحان اللہ۔

کیا ہی اچھی غزل ہے۔ واہ

بہت سی داد قبول کیجے ابن رضا بھائی ۔

اللہ کرے مشق سخن زورِ قلم تیز۔

خوب۔۔۔۔ داد قبول کیجیے۔۔
مطلع میں تہی داماں سے بہتر صورت تہی دامن ہو سکتی ہے کہ یہاں دامن کی تنگی کا اظہار مطلوب ہے کشادگی کا نہیں۔۔۔
خوئے اسیری آقا کی طالب ہے یا خوئے غلامی؟ خوئے اسیری کا تعلق قفس یا زندان کے ساتھ بہتر ہے۔۔۔

پسندآوری کا شکریہ خوش رہیے.
 

ابن رضا

لائبریرین
’تہی داماں و‘ سے تقطیع میں بھی مسئلہ ہو جاتا ہے، اسقاط کی بجائے ’تہی دامن و‘ یقیناً بہتر ہے۔
پڑاہے خالی صنم خانہِ دل جب سے رضا
دستِ آذر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے
دوسرا مصرع بے پناہ ہے، لیکن پہلا رواں نہیں۔ ’پڑا ہے‘ کی وجہ سے۔ اس مصرع کو بدل دو۔
غزل تو بہت خوب ہے۔ واہ!!
سپاس گزار ہوں استاد محترم. سلامت رہیے
 

ابن رضا

لائبریرین
۔
پڑاہے خالی صنم خانہِ دل جب سے رضا
دستِ آذر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے
دوسرا مصرع بے پناہ ہے، لیکن پہلا رواں نہیں۔ ’پڑا ہے‘ کی وجہ سے۔ اس مصرع کو بدل دو۔
غزل تو بہت خوب ہے۔ واہ!!
پھر تمنائے صنم جاگ اٹھی ہے دل میں
دستِ آذر وہی پتھر وہی تیشہ چاہے
 
Top