ابنِ رضا

  1. ابن رضا

    محبت دھوپ جیسی ہے

    گزارش برائے اصلاح بحضور جناب الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی مہدی نقوی حجاز مزمل شیخ بسمل و دیگر اربابَ سخن محبت دھوپ جیسی ہے کبھی سردی کے موسم میں تمازت خوب دیتی ہے ٹھٹھرتے کپکپاتے تن کی یہ تسکین بنتی ہے چمن میں کھل کھلاتی ہے گلوں کا دل لبھاتی ہے کڑی گرمی کے موسم میں کلیجہ آزماتی ہے...
  2. ابن رضا

    اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے

    گزارش برائے اصلاح بحضور جناب الف عین، محمد یعقوب آسی، مزمل شیخ بسمل، مہدی نقوی حجاز، سید عاطف علی و دیگر اربابَ سخن اخلاص کی ثروت دے کردار کی رفعت دے گستاخ نگاہوں کو کچھ اشکِ ندامت دے سرشار مجھے کر دے تو اپنی محبت سے کچھ شوقِ اطاعت دے کچھ ذوقِ عبادت دے شب وروز مرےگزریں تیری ثنا میں پیہم...
  3. ابن رضا

    حصارِ ذات سے نکلے تو کچھ نظر آئے

    آداب عرض ، از راہ کرم اصلا ح سے نوازیں ٖ محترم الف عین محمد یعقوب آسی و دیگر اربابِ سخن حصارِ ذات سے نکلے تو کچھ نظر آئے نگاہِ شوق سے دیکھے تو کچھ نظر آئے انا کی آگ میں جل کرجو دور ہے مجھ سے مرے قریب سے گزرے تو کچھ نظر آئے فریب میں نہ رہے وہ مرے تبسّم کے نگاہِ سوز میں جھانکے تو کچھ نظر آئے...
  4. ابن رضا

    تو یوں غم کی شامیں مناتے نہ جاتے

    از راہَ کرم اصلاح سے فیض یاب کریں الف عینیعقوب آسیفاتحمحمدوارث و دیگر اہلَ سخن دل و جاں میں تم کو بساتے نہ جاتے تو یوں غم کی شامیں مناتے نہ جاتے سنو ہم سے الفت اگر تھی ذرا بھی تو دل کو ہمارے جلاتے نہ جاتے نہ ہوتی کوئی بھی خلش میرے دل میں جوتم دل کے گلشن میں آتے نہ جاتے ہے خاروں سے تجھ...
  5. ابن رضا

    ہمارا یہ ارماں سُنو جاتے جاتے

    از راہَ کرم اصلاح سے فیض یاب کریں الف عینیعقوب آسیفاتحمحمدوارث و دیگر اہلَ سخن ہمارا یہ ارماں سُنو جاتے جاتے کبھی یوں بھی ہوتا کہ تم پاس آتے سُنو تم ہو دل کےحسیں خواب کوئی بھلا تم کو ہم کیوں نہ اپنا بناتے نگاہوں کو اپنی تیرے راستوں پر جو ہم نہ بچھاتے تو جی کیسے پاتے یہ جینا ہمارا تھا کس...
  6. ابن رضا

    بھڑک اُٹھا ہے دل مرا نکل رہی بھڑاس ہے

    محترم اساتذه كرام الف عین یعقوب آسی فاتح محمدوارث و دیگر کی توجه دركار هے از راہِ کرم تنقید و اصلاح سے نوازیں بحر ہزج مثمن مقبوض(مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن) بھڑک اُٹھا ہے دل مرا نکل رہی بھڑاس ہے جلا کے راکھ کر نہ دے یہ جو بھی آس پاس ہے بساطِ جاں لپیٹ دی یوں عشق کے وبال نے کہ جیت ہے نہ...
  7. ابن رضا

    چلیں باتوں میں بہلائے کبھی آئے

    گذارش ہے کہ تنقید و اصلاح سے فیض یاب کریں چلیں باتوں سے بہلائے کبھی آئے وہ اک وعدہ ہی کر جائے کبھی آئے مِرا شکوہ ہی سمجھے یا گذارش وہ خدارا یوں نہ اُلجھائے کبھی آئے وہ چاہے اشکِ کی صورت ہی کچھ لمحے مری ا ٓنکھوں میں بھر آئے کبھی آئے گوارہ ہے ہمیں ہر فیصلہ اُس کا وہ جوچاہےستم ڈھائے کبھی...
Top