کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے

ابن رضا

لائبریرین


روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے

بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں سبھی زیست کے در
آپ کا ہم پہ کُھلا حجلہِ آغوش رہے

وائے قسمت کہ غمِ ہجر سے فرصت نہ ملی
وصل کے لمحے سدا ہم سے ہیں روپوش رہے


زندگی بیت گئی اُن سے وفائیں کرتے
دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے

کیف ہم لائیں کہاں سے وہ سرِ بزم رضؔا
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے


ٹیگ استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب و جناب الف عین صاحب۔
 
آخری تدوین:
کیف لائیں کہاں سے ہم وہ سرِ بزمِ سرور
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے

پہلے مصرع کو اگر یوں کردیں؟
کیف ہم لائیں کہاں سے وہ سرِ بزمِ سرور​

دور جاتے ہی گریزاں سے رہا کرتے جو
پاس آکر وہ ہمیشہ ہی گرم جوش رہے

دوسرے مصرع میں آپ نے گَرَم باندھا ہےجبکہ یہ لفظ گرم ( بفتحہ اول و سکون دوم و سوم، یعنی صرف گ پر زبر اور اگلے دونوں حروف پر جزم) ہوتا ہے ۔ اس کو دیکھ لیجیے
 
روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت اُسے دیکھ کے ذی ہوش رہے
نہیں بھائی! ذی ہوش ایک مستقل قدر ہے جیسے ذی وقار، ذی فہم، ذی شان۔ آپ کا شعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کون ہوش میں رہے؛ یہ قدر نہیں کیفیت ہے۔ حسرت موہانی نے کیا اچھا باندھا ہے:
رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں
چلئے مقطع بھی نقل کر دوں:
حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

اگر شعر میں ترمیم کرنی طے کر لیتے ہیں تو ایک اور بات نوٹ کر لیجئے گا: وہ یوں ہی روبرو بیٹھا رہے ۔۔ اسے دیکھ کر ۔۔ اگرچہ یہ عیب نہیں ہے تاہم "اسے دیکھ کر" کو ہٹا کر آپ اپنے مضمون کو وسعت دے سکتے ہیں۔
 
بند ہو جائیں سبھی زیست کی راہیں لیکن
آپ کا ہم پہ کُھلا حلقہِ آغوش رہے
حلقہ ہے تو پھر بانہوں کا ہو گا، آغوش کو حجلہ تو کہا جا سکتا ہے حلقہ نہیں۔ زیست کی "راہیں" کیا ہوئیں پھر؟ مراعات النظیر کو بہتر کر لیجئے تو اچھا ہے۔
 
کیف لائیں کہاں سے ہم وہ سرِ بزمِ سرور
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے
"کہاں" اخفاء کے جواز کے باوجود یہاں ثقالت کا احساس ہوتا ہے۔ محمد خلیل الرحمٰن کی رائے پر توجہ دیجئے گا۔ آپ یوں بھی کر سکتے ہیں:
کیف ہم لائیں کہاں سے کہ سرِ بزمِ سرور
نہ وہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے
بہ این ہمہ کہ "سرور" کا لفظ مجھے مطمئن نہیں کر رہا۔
 
وائے قسمت کہ ہمیں ہجر سے فرصت نہ ملی
راحتِ وصل سے اکثر ہی سُبکدوش رہے
پہلا مصرع بہت جان دار اور شان دار ہے۔ دوسرے مصرعے میں کچھ مسائل ہیں۔ اکثر کے ساتھ ہی کا استعمال؛ میں اس کو پاسنگ کہا کرتا ہوں، وزن پورا کرنے کو ایک ننھا سا باٹ ڈال دیا۔ اس سے حتی الامکان گریز کیجئے۔ سبک دوش رہنا، کہاں تک درست ہے مجھے نہیں معلوم جناب الف عین سے راہنمائی لیتے ہیں۔ سبک دوش ہونا البتہ معروف ہے۔ راحت کا کندھوں سے کیا تعلق؟ کندھوں پر بوجھ لادتے ہیں، غم سوار ہوتے ہیں، راحت کندھوں پر سوار نہیں ہوتی۔ ایک مسئلہ مفہوم کا بھی در آیا ہے۔ راحت اگرچہ بہت کم یا کبھی کبھار ملی مگر ملی تو ہے نا! "ہجر سے فرصت نہ ملی"؟ اس کا کیا کیجئے گا۔
 
آخری تدوین:
زندگی بیت گئی جن سے وفائیں کرتے
دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے
چل جائے گا۔

ضبط کا جام چھلکنے کو ہے بے تاب بہت
عافیت اُس کی اِسی میں ہے کہ خاموش رہے
جام تو بے تاب نہیں ہوا کرتا، نہ بھرنے کو نہ چھلکنے کو۔ یوں کہہ لیجئے کہ ضبط کا جام چھلکنے کو ہے۔ عافیت کس کی؟ محبوب کی؟ پھر تو بھائی یہ انداز بہت جارحانہ ہے، اگر یہاں رقیب یا دشمن یا حریف مراد ہے تو اس کی طرف اشارہ کرتے جائیے۔
 
دیکھتے کیا ہو یوں مخمور نگاہوں سے ہمیں
کبھی ہم بھی تھے رضؔا رندِ بلانوش رہے
نہیں بھائی! اس شعر کو تو پھر سے کہئے۔ ایک اہم بات یہاں بھی۔ تخلص کو مسئلہ نہ بنائیے گا کبھی، نہیں بھی آتا تو کیا ہے! غزل تو آپ ہی کی ہے نا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پہلے مصرع کو اگر یوں کردیں؟
کیف ہم لائیں کہاں سے وہ سرِ بزمِ سرور​



دوسرے مصرع میں آپ نے گَرَم باندھا ہےجبکہ یہ لفظ گرم ( بفتحہ اول و سکون دوم و سوم، یعنی صرف گ پر زبر اور اگلے دونوں حروف پر جزم) ہوتا ہے ۔ اس کو دیکھ لیجیے

گرم والا مصرعہ صاحبِ غزل نے نکال دیا، اچھا کیا۔ "گرم" وتد مفروق کی سند میں غالب ایک شعر:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا

اقبال نے بھی اس کی پیروی کی ہے:
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو کہ بزم ہو، پاک دل پاک باز
(عبارت کی توثیق کر لیجئے گا)۔
 

ابن رضا

لائبریرین
گرم والا مصرعہ صاحبِ غزل نے نکال دیا، اچھا کیا۔ "گرم" وتد مفروق کی سند میں غالب ایک شعر:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا

اقبال نے بھی اس کی پیروی کی ہے:
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو کہ بزم ہو، پاک دل پاک باز
(عبارت کی توثیق کر لیجئے گا)۔
استادِ محترم اس شاندار تنقید کے لیے شکرگزار ہوں۔ ترمیم کی کوشش کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا
 

ابن رضا

لائبریرین
گرم والا مصرعہ صاحبِ غزل نے نکال دیا، اچھا کیا۔ "گرم" وتد مفروق کی سند میں غالب ایک شعر:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا

اقبال نے بھی اس کی پیروی کی ہے:
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو کہ بزم ہو، پاک دل پاک باز
(عبارت کی توثیق کر لیجئے گا)۔

بارِ دگر توجہ فرمائیے گا استادِ محترم

روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے

بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں سبھی زیست کے در
آپ کا ہم پہ کُھلا حجلہِ آغوش رہے

وائے قسمت کہ غمِ ہجر سے فرصت نہ ملی
وصل کے لمحے سدا ہم سے ہیں روپوش رہے

زندگی بیت گئی اُن سے وفائیں کرتے
دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے

کیف ہم لائیں کہاں سے وہ سرِ بزم رضؔا
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بارِ دگر توجہ فرمائیے گا استادِ محترم

روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے

بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں سبھی زیست کے در
آپ کا ہم پہ کُھلا حجلہِ آغوش رہے

وائے قسمت کہ غمِ ہجر سے فرصت نہ ملی
وصل کے لمحے سدا ہم سے ہیں روپوش رہے

زندگی بیت گئی اُن سے وفائیں کرتے
دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے

کیف ہم لائیں کہاں سے وہ سرِ بزم رضؔا
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے



بہت خوب ابن رضا بهائی - کیا کہنے -
 
بارِ دگر توجہ فرمائیے گا استادِ محترم

روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے

بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں سبھی زیست کے در
آپ کا ہم پہ کُھلا حجلہِ آغوش رہے

وائے قسمت کہ غمِ ہجر سے فرصت نہ ملی
وصل کے لمحے سدا ہم سے ہیں روپوش رہے

زندگی بیت گئی اُن سے وفائیں کرتے
دوست اپنے وہی احسان فراموش رہے

کیف ہم لائیں کہاں سے وہ سرِ بزم رضؔا
اب نہ ساقی رہا ویسا نہ وہ مے نوش رہے


۔۔۔۔۔۔ بہت بہتر ہو گئی، مزید توجہ دیجئے گا مگر دو چار مہینے بعد۔
 
Top