نتائج تلاش

  1. م

    دل نے کس کس کا غم نہ کھایا تھا

    اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔ کوئی اپنا تھا یا پرایا تھا دل نے کس کس کا غم نہ کھایا تھا اگلی نسلوں کو کر دیا تفویض ہم نے جو عشق میں کمایا تھا آپ کے زیرِ لب تبسم نے کچھ مرا حوصلہ بڑھایا تھا دل میں اب خواہشوں کا میلہ ہے یہ نگر آنکھ نے بسایا تھا کوئی تھا کیا مرے تعاقب میں یہ مرے ساتھ کس کا...
  2. م

    ایک بزرگ نے آج بتایا

    ایک بزرگ نے آج بتایا میرے ایک سوال کے بعد تم کو میٹھی نیند آئے گی صرف اور صرف وصال کے بعد مجھے یہ جاننا ہے کہ کیا یہ مصارع وزن میں ہیں؟ اگر ہیں تو کیا انھیں ایک شعر کہا جاسکتا ہے؟
  3. م

    بیٹھے بیٹھے جو ابھی میں نے یہ بے کار کیا - برائے اصلاح

    بیٹھے بیٹھے جو ابھی میں نے یہ بے کار کیا وقت پر سانس کی تلوار سے اک وار کیا آستیں پھاڑ کے سانپوں کو نکالا باہر اور گریباں کو بھی یوں میں نے ہوادار کیا میں ہوں وہ بلبلِ ناداں کہ فغاں نے جس کی ہر سحر باغ میں گلچیں کو خبردار کیا مگس السی سے اڑی اور سرِ نرگس بیٹھی چھوڑ کر اُس نے مجھے، بوالہوس اک...
  4. م

    بے کلی کا عذاب کیسا ہے - برائے اصلاح

    بے کلی کا عذاب کیسا ہے زندگی کا عذاب کیسا ہے عشق کرتے ہی یہ ہوا معلوم خود کشی کا عذاب کیسا ہے اُس کی آنکھوں کے کرب سے جانا ان کہی کا عذاب کیسا ہے میں جو بولوں تو پھر کُھلے مجھ پر خامشی کا عذاب کیسا ہے اشک آنکھوں میں کیوں نہیں آتے بے حسی کا عذاب کیسا ہے کھینچ کر وہ سبو لبوں سے کہیں تشنگی کا...
  5. م

    دل میں آتا ہے خیال اُس کی نظر بازی کا (برائے اصلاح)

    دل میں آتا ہے خیال اُس کی نظر بازی کا خشک لکڑی پہ پِھرا جاتا ہے اک رَندا سا کوئی جُز وقتی سا دھندا بھی مِلا لیتا ہوں ساتھ جن دنوں عشق ذرا چل رہا ہو مندا سا خونِ عاشق سے کُلی آپ نے فرمائی ہے لوگ کہتے ہیں بہت خوب مَلا دنداسا زلف کی لٹ کو دیے دیر تلک آپ نے بل رگِ جاں کے لئے تب جا کے بنا پھندا سا
  6. م

    عشق جب کر لیا تو آہ نہ کر ۔۔۔۔۔ غزل برائے اصلاح

    اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔ کشفِ راز اب تُو کر نہ بے خبری میں عشق جب کر لیا تو آہ نہ کر! چھیڑ کر ذکرِ تلخئ دوراں طَرَبِ وصل کو تباہ نہ کر! کشتگاں کو جفا کا دوش نہ دے گر نہیں کرتا تُو نباہ، نہ کر پارسائی کے اس فسانے میں عالِم الغیب کو گواہ نہ کر! گیسوؤں کی چمک پہ اے دل مت جا! تیرگی کو...
  7. م

    اصلاح درکار ہے

    واجبی سی شکل پر خوشنما نقاب تھی قیمتی سبو میں بے لطف سی شراب تھی پانی جس کو سمجھے تھے تشنگان دور سے جب گئے قریں، کُھلا، وہ چمک سراب تھی اولین عشق کی مختصر ہے داستاں طفلِ بے ضرر تھا میں اور وہ پر شباب تھی وہ جمالِ کم نما اب نہ جانے کیسا ہو کم سنی میں جس کی چھب رشکِ ماہتاب تھی ایسی بے مَثَل نہ...
  8. م

    چار اشعار برائے اصلاح

    محبت کے جزیرے پر رہیں گے یہاں پر کشتیاں اپنی جلا دو فصیلِ جسم کو سر کر چکا ہوں مجھے اب مسندِ دل پر جگہ دو محبت بھیک میں کب مانگتا ہوں مجھے میری ریاضت کا صلہ دو یہ پوچھا، کیا میں دے دوں ایک بوسہ چہک کر اس حیا کُش نے کہا، دو!
  9. م

    محبّت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی (شاہد ذکی)

    محبّت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی شروع حق سے ہوئی اور شک پہ ختم ہوئی میں اپنی روح کی تمثیل کی تلاش میں تھا مری تلاش تمھاری مہک پہ ختم ہوئی وہ خامشی جو کسی اور خامشی میں ڈھلی کوئی سڑک تھی جو اگلی سڑک پہ ختم ہوئی اک ابتلا تھی جسے لمس کی کشش کہیے اک اشتہا تھی جو آب و نمک پہ ختم ہوئی سیاہی...
  10. م

    ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﺧﺪﻭ ﺧﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ (شاہد ذکی)

    ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﺧﺪﻭ ﺧﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﮎ ﺳﮯ ﺁﺏ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﭘﮕﮭﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﺧﻮﺵ ﺭﻧﮓ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ تجھ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﻮﻟﺘﺎ ﭘﮭﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ مجھ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺁﺗﯽ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺅﮞ ﻧﮧ ﯾﮧ ﭘﻮﺷﺎﮎ ﺑﺪﻟﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺷﻌﺒﺪﮦ ﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﮩﻤﺎﻥِ ﺻﻒِ ﯾﺎﺭﺍﮞ ﮨﻮﮞ ﺯﮨﺮ ﭘﯿﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺪ ﺍﮔﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ...
  11. م

    یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے (شاہد ذکی)

    یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے نیک لوگوں میں مجھے نیک گِنا جاتا ہے اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے جڑ اکھڑنے سے جھکی رہتی ہیں شاخیں میری دور سے لوگ ثمَر بار سمجھتے ہیں مجھے روشنی سرحدوں کے پار بھی پہنچاتا ہوں ہم وطن اس لئے غدّار سمجھتے ہیں مجھے...
  12. م

    بہار آئے گی اور میں نمو نہیں کروں گا (شاہد ذکی)

    بہار آئے گی اور میں نمو نہیں کروں گا خزاں کو اب کے برَس سرخرو نہیں کروں گا یہ دودھ کوزۂ آلودہ کے لئے نہیں ہے میں ہر کسی سے تری گفتگو نہیں کروں گا دکھاؤں گا تری بے چہرگی تجھے کسی دن اور آئینہ بھی ترے رُو بہ رُو نہیں کروں گا کروں گا میں ترے ساتھ دشمنی لیکن ترے قبیلے کو بے آبرو نہیں کروں گا...
  13. م

    آرزو ترک نہ کرتا تو یہ گھر کٹ جاتا (شاہد ذکی)

    آرزو ترک نہ کرتا تو یہ گھر کٹ جاتا میں اگر شاخ بچاتا تو شجر کٹ جاتا تیری آواز سے جانا ہے کہ دشمن نہیں تُو ورنہ اس تیرہ شبی میں ترا سر کٹ جاتا ورنہ پانی کا یہ پنجرہ تو کوئی شے ہی نہ تھا کھلے ہوتے مرے بازو تو بھنور کٹ جاتا یوں نہیں تھا کہ مجھے تابِ تب و تاب نہ تھی میں اگر دیکھتا رہتا تو گہر کٹ...
  14. م

    غزل نما - برائے اصلاح

    آکے سورج پلٹ گیا آخر آج کا دن بھی کٹ گیا آخر رات میں سب ستم شعاروں کے نام و اکرام رٹ گیا آخر اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر موت آئی نہ آسماں ٹوٹا عرصہء ہجر کٹ گیا آخر زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی چاند سے ابر چھٹ گیا آخر بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر...
  15. م

    چار اشعار برائے تنقید و اصلاح

    محترم اساتذۂ کرام: محمد یعقوب آسی صاحب الف عین صاحب آپ سے تنقید و اصلاح کی درخواست ہے۔ نظرِ کرم فرمائیں۔ دبا کر خواہشِ لطفِ گنہ دل میں کئی راتیں نمودِ پارسائی میں عبث برباد کیں میں نے وہ سوتا دیکھ کر مجھ کو مرے ماتھے پہ بوسہ دے اسے دیکھا جو بالیں پر تو آنکھیں میچ لیں میں نے تھی ایسی تشنگی...
  16. م

    چراغ استقامت جل رہا ہے (نجیب احمد)

    سر نیزہ جو روشن ہو گیا ہے رسول پاک کے گھر کا دیا ہے ‏ اندھیری رات کی پوروں میں جگنو با انداز شرر جل بجھ رہا ہے ‏ ہوائیں سر پٹخ کر رہ گئیں ہیں چراغ استقامت جل رہا ہے ‏ عزا دارو! یہاں چلتے ہیں آنسو خریدارو! یہ بازار رضا ہے ‏ ترے گھر میں جگہ کیا پائے دنیا ترا خیمہ نہیں، شہر وفا ہے ‏ نجیب اک شخص کی...
  17. م

    ایک غزل نما برائے اصلاح

    گنجینہء اسرار ہے اس رخ کا ہر نقش متیں ذوق تدبر بانٹتی ہے وہ کشادہ سی جبیں اب اس سے بڑھ کر کیا بتائیں ان کی بابت ہم نشیں ان سا نہ ہو گا اس جہاں میں دوجا کوئی بھی حسیں ہے جاں گسل ماحول میں بھی وہ نوائے زندگی بے نورئ اوہام میں مینارہء حلم و یقیں اوج قیامت خیز میں دونوں برابر ہی سہی پر وہ کمال...
  18. م

    تک رہا تھا روک کر اپنی روانی دور سے - ماجد بشیر

    تک رہا تھا روک کر اپنی روانی دور سے صاحبان صبر کو دریا کا پانی دور سے علم کو جانا پڑا چل کر جوار جہل تک کیسے سمجاتا شہادت کے معانی دور سے شیر خوار آغوش بابا میں بزرگی پا گیا دیکھتی ہی رہ گئی اس کو جوانی دور سے نوک نیزہ پر سجی تھی اس لئے قندیل نور کم نظر بھی دیکھ لیں حق کی نشانی دور سے یہ متاع...
  19. م

    بیت بازی سے لطف اٹھائیں (5)

    یہ بزم محبت ہے، اس بزم محبت میں دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی
  20. م

    شاعری نہیں اتصال

    ہجوں کے تعارف سے پہلے تک کی اپنی کوئی تخریب کاری ہمیں یاد نہیں، لیکن جب سے ہجے سیکھے ہیں وہ توڑ پھوڑ کی کہ الامان والحفیظ! کوئی شعر نظر سے گزرا نہیں کہ ہمارے ہاتھوں پاش پاش ہوا نہیں. لیکن جب تخریب کاری کے عمل سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے تو تقطیع نگاری میں دل جمعی برقرار نہیں رہتی. آب و ہوا کی تبدیلی...
Top