عشق جب کر لیا تو آہ نہ کر ۔۔۔۔۔ غزل برائے اصلاح

مزمل حسین

محفلین
اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔

کشفِ راز اب تُو کر نہ بے خبری میں
عشق جب کر لیا تو آہ نہ کر!

چھیڑ کر ذکرِ تلخئ دوراں
طَرَبِ وصل کو تباہ نہ کر!

کشتگاں کو جفا کا دوش نہ دے
گر نہیں کرتا تُو نباہ، نہ کر

پارسائی کے اس فسانے میں
عالِم الغیب کو گواہ نہ کر!

گیسوؤں کی چمک پہ اے دل مت جا!
تیرگی کو چراغِ راہ نہ کر

کسی بے ظرف سے تُو مُزَّمِّل
اختلاطِ دل و نگاہ نہ کر!
 
آخری تدوین:
پارسائی کے اس فسانے میں
عالِم الغیب کو گواہ نہ کر!
کیا کہنے!
کشفِ راز اب تُو کر نہ بے خبری میں
گیسوؤں کی چمک پہ مت جا اے دل!
سابقہ تجربے کی بنیاد پر کہتے ہوئے ڈر تو لگ رہا ہے مگر ذرا محولہ بالا مصرعوں کی تقطیع کیجیے۔ :shut-mouth:
 

مزمل حسین

محفلین
سابقہ تجربے کی بنیاد پر کہتے ہوئے ڈر تو لگ رہا ہے مگر ذرا محولہ بالا مصرعوں کی تقطیع کیجیے۔ :shut-mouth:

آپ کی توجہ کے لئے شکر گذار ہوں۔
میری تقطیع تو کچھ یوں ہے:
کش ف را زب ت کر ن بے خ ب ری م
اب یہ صحیح ہے یا غلط یہ آپ جانیں اور دوسرے اساتذہ۔

مصرعِ ثانی میری اپنی نظر میں بھی غلط ہے۔ اسے یوں کر دیا جائے:
گیسوؤں کی چمک پہ اے دل مت جا
گی س ؤ کی چ مک پ اے دل مت ج
تو کیا صحیح ہے۔ ۔؟
 

الف عین

لائبریرین
نہیں عزیزم، بحر سے خارج ہی ہیں دونوں مصرعے۔ ’میں‘ کو محض ’م‘ نہیں کیا جا سکتا۔ تمہاری تقطیع میں ’بے خبریم‘ ہی ہو رہی ہے۔مصرع کے آخر میں ’میں‘ کی ی اور غنہ دونوں حذف نہیں کئے جا سکتے۔ اسی طرح گیسوؤں والا مصرع بھی ہے، اس میں بھی ’جا‘ کا الف کا اسقاط غلط ہے۔
اس کے علاوہ مجھے صرف مقطع میں تردد ہے۔ بے ظرف اور اختلاط کا ربط سمجھ میں نہیں آتا۔
 

مزمل حسین

محفلین
نہیں عزیزم، بحر سے خارج ہی ہیں دونوں مصرعے۔ ’میں‘ کو محض ’م‘ نہیں کیا جا سکتا۔ تمہاری تقطیع میں ’بے خبریم‘ ہی ہو رہی ہے۔مصرع کے آخر میں ’میں‘ کی ی اور غنہ دونوں حذف نہیں کئے جا سکتے۔ اسی طرح گیسوؤں والا مصرع بھی ہے، اس میں بھی ’جا‘ کا الف کا اسقاط غلط ہے۔
بہت بہتر استادِ محترم!
درستی کی کوشش کروں گا۔
اس کے علاوہ مجھے صرف مقطع میں تردد ہے۔ بے ظرف اور اختلاط کا ربط سمجھ میں نہیں آتا۔
آپ کا مطلب ہے کہ بے ظرف سے اختلاط سرے سے ممکن ہی نہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
میرا مطلب ہے کہ ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ سمجھا جا سکے کہ بے ظرف سے ہی کیوں منع کیا جا رہا ہے۔
 
واہہہہہہہہہ عمدہ کلام ہے اور اساتذہ کے تبصرے بھی زبردست ہیں ۔۔۔
طَرَبِ وصل کو تباہ نہ کر!

گر نہیں کرتا تُو نباہ، نہ کر

پارسائی کے اس فسانے میں
عالِم الغیب کو گواہ نہ کر!
بہت عمدہ اشعار ہیں بڑی گہرائی والے۔۔۔
در حقیقت اساتذہ کے تبصرے ہی ہم جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔۔اللہ تمام اساتذہ خاص کر سر الف عین اور محمد یعقوب آسی صاحب کی زندگی میں برکت دے آمین۔۔۔
 

مزمل حسین

محفلین
واہہہہہہہہہ عمدہ کلام ہے اور اساتذہ کے تبصرے بھی زبردست ہیں ۔۔۔





بہت عمدہ اشعار ہیں بڑی گہرائی والے۔۔۔
در حقیقت اساتذہ کے تبصرے ہی ہم جیسے کم علموں کے علم میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔۔اللہ تمام اساتذہ خاص کر سر الف عین اور محمد یعقوب آسی صاحب کی زندگی میں برکت دے آمین۔۔۔
آمین!
حوصلہ افزائی کے لئے بہت شکریہ سید لبید غزنوی صاحب۔
اشعار کیا ہیں بس اردو سیکھنے کی ایک کاوش ہے۔
 
کشفِ راز اب تُو کر نہ بے خبری میں
یا تو اوزان کا مسئلہ ہے یا پھر آپ نے حروفِ علت کو بے دریغ گرایا ہے۔ آخری دونوں شعروں کے پہلے مصرعوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

بات یہ ہے حضرت! کہ شعر کا منصب محض وزن پر پورا اترنا نہیں ہے۔ وہ بھی اگر بزورِ قاری ہو تو شعر تو نہ ہوا! شعر کے دیگر عناصر بھی ہیں، سب کو دھیان میں رکھنا پڑتا ہے۔ دیکھئے نا، شاعری ہم پر تھوپی نہیں جاتی، ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔ اختیاری کام میں تو بہت نفاست ہونی چاہئے۔
 
چھیڑ کر ذکرِ تلخئ دوراں
طَرَبِ وصل کو تباہ نہ کر!

کشتگاں کو جفا کا دوش نہ دے
گر نہیں کرتا تُو نباہ، نہ کر

پارسائی کے اس فسانے میں
عالِم الغیب کو گواہ نہ کر!
ان میں پہلا شعر قابلِ قبول ہے۔ دوسرے کے مفاہیم دور از کار ہیں۔ تیسرے میں شیخ و رند کا روایتی جھگڑا ہے مگر بہت ڈھیلا؛ بھائی جھگڑنا ہے شدت سے جھگڑئیے!
 
جناب الف عین کا انداز بزرگانہ ہوتا ہے، ان کی ہدایات پر توجہ دیجئے گا۔
میں اختیار کردہ کام میں "گزارہ" کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ مجھ سے جب شعر نہیں ہوتا تو اپنی بات نثر میں کہہ دیا کرتا ہوں۔
 
Top