ایک غزل نما برائے اصلاح

مزمل حسین

محفلین
گنجینہء اسرار ہے اس رخ کا ہر نقش متیں
ذوق تدبر بانٹتی ہے وہ کشادہ سی جبیں

اب اس سے بڑھ کر کیا بتائیں ان کی بابت ہم نشیں
ان سا نہ ہو گا اس جہاں میں دوجا کوئی بھی حسیں

ہے جاں گسل ماحول میں بھی وہ نوائے زندگی
بے نورئ اوہام میں مینارہء حلم و یقیں

اوج قیامت خیز میں دونوں برابر ہی سہی
پر وہ کمال پیکر بت سرو گلشن میں نہیں

بے داغ اجلا سا بدن، اس پر قبائے نیلگوں
گویا فلک کی گود میں رکھا ہو ابر مرمریں

زلف پریشاں تھی کمر پر اس ادا سے منتشر
جوں دامن شب میں بپا اک زلزلہ سا ہو کہیں

ہر اک کلی کا سر جھکا بار ندامت کے سبب
جب مسکرائی وہ نکل کر باغ میں حور زمیں

کنج ردا کو تھامنا انگشت سے رخسار پر
اپنا گمان ان کا ظہور جلوہء دست مبیں

صدمہ گزار ہجر کے حق میں جزا لکھتے رہے
بیٹھے نہ فرصت سے کبھی اپنے کراما کاتبیں

عشق بتاں سے بھی ملا ہم کو عذاب بے کلی
تسکین دل کے واسطے بس یاد رب العلمیں
 

الف عین

لائبریرین
اوزان تو کہیں خطا نہیں ہو رہے ہیں ماشاء اللہ۔ کچھ مصرع البتہ مفہوم طلب ہیں، جیسے یہ مکمل شعر
کنج ردا کو تھامنا انگشت سے رخسار پر
اپنا گمان ان کا ظہور جلوہء دست مبیں
 

حمید

محفلین
بے داغ اجلا سا بدن، اس پر قبائے نیلگوں
گویا فلک کی گود میں رکھا ہو ابر مرمریں
منظر کشی پسند آئی ،شعر کی داد، گو شاید اردو زبان میں اور اچھا لگتا :D
 

مزمل حسین

محفلین
اوزان تو کہیں خطا نہیں ہو رہے ہیں ماشاء اللہ۔ کچھ مصرع البتہ مفہوم طلب ہیں، جیسے یہ مکمل شعر
کنج ردا کو تھامنا انگشت سے رخسار پر
اپنا گمان ان کا ظہور جلوہء دست مبیں
شکریہ استاد محترم اوزان کے علاوہ شاعری کی اصلاح بھی درکار ہے. مزید جو مصرعے مفہوم طلب ہیں ان کی نشاندہی فرما دیں اور اصلاح و ترامیم بھی، بقول شاعر (جو "تم" سے ہو سکے ہے سو ہم سے کبھو نہ ہو). یہ میری فرسٹ ایور اور مجموعی طور پر دوسری جسارت ہے، آپ کی نظر میں کیا میں شعر گوئی کا اہل ہوں یا نہیں؟ کیونکہ اب تک بے تکیاں ہی ہانک سکا ہوں
 

مزمل حسین

محفلین
عبدالحمید صاحب شعر کی داد کا شکریہ ویسے میرے خیال میں تشبیہہ بازی اور منظر کشی میں تھوڑا سا فرق تو روا رکھنا چاہیے. آخری بات جو آپ نے کہی وہ میری سمجھ میں نہیں آئی
 

الف عین

لائبریرین
گنجینہء اسرار ہے اس رخ کا ہر نقش متیں
ذوق تدبر بانٹتی ہے وہ کشادہ سی جبیں
//درست، اگرچہ ’تدبر‘ کی جگہ کچھ اور سوچو تو بہتر ہو۔

اب اس سے بڑھ کر کیا بتائیں ان کی بابت ہم نشیں
ان سا نہ ہو گا اس جہاں میں دوجا کوئی بھی حسیں
// دوسرا یوں کہو
ان سا نہ ہو گا اس جہاں میں دوسرا کوئی حسیں

ہے جاں گسل ماحول میں بھی وہ نوائے زندگی
بے نورئ اوہام میں مینارہء حلم و یقیں
//حلم و یقیں میں کیا مطابقت ہے؟ اس کی بہ نسبت ‘’علم و یقیں‘ ممکن ہے اور زیادہ معنی خیز ہے۔

اوج قیامت خیز میں دونوں برابر ہی سہی
پر وہ کمال پیکر بت سرو گلشن میں نہیں
// کمال پیکر بت؟؟ اس کی جگہ کچھ متبادل سوچو تو شعر درست ہو جائے۔

بے داغ اجلا سا بدن، اس پر قبائے نیلگوں
گویا فلک کی گود میں رکھا ہو ابر مرمریں
//ابر مرمریں؟ قافئے کی ضرورت کے علاوہ یہاں اس استعمال کا کیا مطلب ہے؟ شعر میں ورنہ اور کوئی عیب نہیں۔


زلف پریشاں تھی کمر پر اس ادا سے منتشر
جوں دامن شب میں بپا اک زلزلہ سا ہو کہیں
//دوسرا مصرع یوں کہو تو بہتر ہے، روانی بھی آ جائے اور ’جوں‘ کے قدیمی استعمال سے بھی بچ سکو
جیسے بپا اک زلزلہ ہو دامنِ شب میں کہیں

ہر اک کلی کا سر جھکا بار ندامت کے سبب
جب مسکرائی وہ نکل کر باغ میں حور زمیں
//درست

کنج ردا کو تھامنا انگشت سے رخسار پر
اپنا گمان ان کا ظہور جلوہء دست مبیں
//کنجِ ردا؟ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرے مصرع کا پہلے مصرع سے تعلق بھی سمجھ میں نہیں آ سکا۔

صدمہ گزار ہجر کے حق میں جزا لکھتے رہے
بیٹھے نہ فرصت سے کبھی اپنے کراما کاتبیں
//درست

عشق بتاں سے بھی ملا ہم کو عذاب بے کلی
تسکین دل کے واسطے بس یاد رب العلمیں
//درست
 
Top