نتائج تلاش

  1. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    دن ہے بے مزا ہمدم آ مجھے ستا ہمدم جو بھی بن چکا ہوں میں غم کی ہے عطا ہمدم اس لیے بھی چپ ہوں بس اب میں تھک چکا ہمدم دل نہیں لگا میرا میں جہاں گیا ہمدم کس کو ڈھونڈتا ہوں میں کیا ہے کھو گیا ہمدم درد کی دوا دیکر درد کو گھٹا ہمدم دل مرا ہے کیوں بے چین کچھ مجھے بتا ہمدم لے کے اپنی بانہوں میں دے...
  2. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    تیرگی، روشنی، آگہی کچھ نہیں ہیں سبھی عارضی دائمی کچھ نہیں خواب و حسرت کا ہے اک تماشا فقط اور اس کے سوا زندگی کچھ نہیں دورِ حاضر میں دولت بڑی چیز ہے راستی، دوستی، مخلصی کچھ نہیں ایک میری ہی مجھ میں کمی ہے فقط اور اس کے علاوہ کمی کچھ نہیں تم بھی ہو خوب، میں بھی ہوں اچھا مگر اس جہاں کے لیے...
  3. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    دل کو غم سے نجات تھوڑی ہے بس خوشی ہی حیات تھوڑی ہے کیوں بتا ؤں کہ پیار ہے تم سے یہ بتا نے کی بات تھوڑی ہے تجھ سے مانگیں دلیل ہونے کی سب کی اتنی بساط تھوڑی ہے خود کو میں خود بچا کے لایا ہوں اس میں قسمت کا ہاتھ تھوڑی ہے تم سے ملکر میں خوش تو ہوں لیکن اس خوشی کو ثبات تھوڑی ہے میں تو اکثر...
  4. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    میرے سر پر ہے آسماں سائیں پھر بھی کتنا ہوں بے اماں سائیں خوش گمانی ہے اب علاجِ غم اس لیے بھی ہوں خوش گماں سائیں کر لیا نا! خدا کو بھی مشکوک اور سلجھاؤ گتھیاں سائیں گھر تو اپنا میں چھوڑ آیا ہوں دل مگر رہ گیا وہاں سائیں ایک بے کیف رابطے کے سوا کچھ نہیں اپنے درمیاں سائیں میں ازل سے ہوں بدگماں...
  5. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    میں کہیں جا رہا ہوں بس یوں ہی خود کو بہلا رہا ہوں بس یوں ہی میں حقیقت پسند ہوں لیکن سچ کو جھٹلا رہا ہوں بس یوں ہی کیا مجھے سب سے کچھ شکایت ہے؟ یا میں کترا رہا ہوں بس یوں ہی کب میں پہنوں گا یہ نئے کپڑے؟ جو میں بنوا رہا ہوں بس یوں ہی یا تو مشکل ہے زندگی کا سفر یا میں گھبرا رہا ہوں بس یوں ہی...
  6. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    کیا یہ "دانش " کی بدگمانی ہے یا "خدا" واقعی کہانی ہے یہ جو مردوں کے دل میں نرمی ہے یہ بھی عورت کی مہربانی ہے زندگی آج ہے ابھی ہےبس یہ جو "کل" ہے یہ خوش گمانی ہے نہ ہو مقصد تو رائیگاں ہے حیات اور ویسے بھی رائگانی ہے اس پہ لازم ہے اپنی حد میں رہے میں نے مانا کہ زندگانی ہے تم نہ سمجھو گے زندگی...
  7. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    سوچ کا ارتقا ضروری ہے اور بے انتہا ضروری ہے اس لیے تم سے حال پوچھ لیا مجھ کو ایسا لگا ضروری ہے تاکہ خوشبو نہ جائے رشتوں سے گھر میں اک موتیا ضروری ہے ماں میں سویا نہیں ہوں عرصے سے مجھ کو لوری سنا ضروری ہے ختم ہوتے نہیں دعا سے فقط کچھ غموں کی دوا ضروری ہے آج حالت عجیب ہے اے دوست مجھ کو سینے...
  8. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    بس کتابوں میں ہے لکھا آزاد ورنہ کب ہے وطن مرا آزاد سوچنے پر لگا کے پابندی مجھ کو صیاد نے کیا آزاد یہ وطن پاک سر زمیں ہے جناب ہیں فقط اس میں پارسا آزاد جشنِ آزادی کیوں مناؤں میں؟ کیا میں سچ مچ میں ہو گیا آزاد ؟ متعصب ہیں اس وطن کے لوگ کوئی ان میں نہیں بچا آزاد اے وطن تیرے حکمرانوں نے ہم.کو...
  9. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    یا تو میں درد کی شدت سے نکھر جاؤں گا یا کسی روز میں خود پر سے گزر جاؤں گا تم نے سوچا بھی یہ کیسے کہ گنوا دوں گا تمھیں میں یہ سوچوں بھی تو لگتا ہے کہ مرجاؤں گا مجھ کو بدلے میں محبت کے محبت دینا ورنہ دعوائے محبت سے مکر جاؤں گا چھوڑ دوں کیسے یہ محفوظ ٹھکانہ اپنا میں ترے دل سے نکل کر تو...
  10. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    فرطِ غم میں تو مرے تک تو کھنچی آتی ہے مجھ کو دل جوئی مگر واجبی سی آتی ہے تھوڑی ترمیم کہانی میں ذرا کر واعظ قصہِ حور پہ اب مجھ کو ہنسی آتی ہے کیا عداوت ہے تجھے مجھ سے سخی یہ تو بتا کیوں ترے در سے سدا میری تہی آتی ہے یوں نہیں ہے کہ رسائی میں نہیں میخانہ میرے حصے میں مگر تشنہ...
  11. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    مدعا دل کا کب کہا کیجے اتنی مصروفیت ہے کیا کیجے آپ نے کھو دیا ہے کب کا مجھے میں کہاں ہوں میرا پتہ کیجے مجھ کو چارہ گری نہیں درکار بس مجھے ہمدمی عطا کیجے آپ احباب کے لیے میرا دل نہ دھڑکے اگر تو کیا کیجیے کوئی بھی عقلِ کل نہیں ہے میاں صرف اپنی ہی مت سنا کیجے روک لیتی ہے جب انا مجھ کو آپ...
  12. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    جسے دیکھیے وہ مریضِ انا ہے مرض غالِباً یہ وبا بن چکا ہے چھٹی گرد منظر سے تب یہ کھلا ہے تعلق لڑائی میں مارا گیا ہے میں دشتِ جفا کا مسافر رہا ہوں الم آشنا ہوں خدا جانتا ہے مقید نہ کر طائرِ فکر کو تُو کہ منطق کی پرواز عقدہ کشا ہے بہلتا نہیں ہوں میں جھوٹی ادا سے مرا دل محبت کو پہچانتا ہے...
  13. فیضان قیصر

    غزل برائے اصلاح

    بے سند بات جب کسی نے کی اس کی تردید آ گہی نے کی متحیر ہیں تیرگی والے چوٹ ان سے یوں روشنی نے کی راستے میں ہی کھو گئے وہ سب رہبری جن کی مولوی نے کی مجھ کو اپنا بنا لیا تم نے یہ کرامت بھی بس تمھی نے کی اس سے بڑھ کر تضاد کیا ہوگا بھوک پر گفتگو غنی نے کی مخبری سب سے حالِ دل کی مرے میری بے...
  14. فیضان قیصر

    برائے اصلاح

    کتنے دن سے تمھیں شکایت ہے تم پہ میں شاعری نہیں کرتا سچ تو یہ ہے یہ سچ نہیں جاناں میں نے کوشش تو بارہا کی ہے میں تمھاری ادا کے جادو پر نظم ،نغمہ یا پھر غزل لکھوں ہائے افسوس ہے مگر جاناں آج تک کچھ میں لکھ نہیں پایا سچ میں یہ بھی تو بے سبب کب ہے اس کی بھی تم ہی وجہ ہو جانم اس...
  15. فیضان قیصر

    برائے اصلاح

    بس یہ سمجھیں کہ بس چلا ہی نہیں اس کو جانا تھا وہ رکا ہی نہیں میں کسے ڈھونڈھتا رہا اس میں کیا بتاوں مجھے پتہ ہی نہیں یاد مجھکو سبھی وہ باتیں ہیں یاد جن کو کبھی کیا ہی نہیں میں بھی مرضی کی زندگی جی لوں مجھ میں لیکن یہ حوصلہ ہی نہیں خود کو مصروف کر لیا لیکن دل کسی کام میں لگا ہی نہیں قہقہے مارتا...
  16. فیضان قیصر

    برائے اصلاح

    اک جگہ دل نہیں لگاتے ہیں ہم مسافر ہیں لوٹ جاتے ہیں جس قدر درد دل میں بڑھتا ہے اتنی ہم خامشی بڑھاتے ہیں آپ جو ہیں دکھائی بھی دیں وہ ہم تو جو ہیں نظر بھی آتے ہیں آگ ہم نے لگائی کیوں گھر کو ؟ اور اب کیوں نہیں بجھاتے ہیں؟ پوچھیے مت سبب اداسی کا ہم کسی کو نہیں بتاتے ہیں چھوڑنا ہے تو چھوڑ دو ہم کو...
  17. فیضان قیصر

    برائے اصلاح

    بن ترے جو بھی زندگی ہوگی مستقل اس میں اک کمی ہوگی تیرے دم سے ہے روشنی گھر میں تو نہیں ہو تو تیرگی ہوگی اس لیے سب ترے مخالف تھے تو نے انکی نہیں سنی ہوگی تم جو گم سم اداس رہتے ہو اس طرح کیسے نوکری ہوگی ایک ہی موڈ ہوگا بن تیرے مستقل دل کو بے کلی ہوگی ٹیس جس کی نہیں گئی اب تک بات دل...
  18. فیضان قیصر

    برائے اصلاح

    ان دنوں اس طرح سے الجھا ہوں پل میں تولا ہوں پل میں ماشہ ہوں تم حقیقت نہیں ہو لیکن میں اب اسی جھوٹ پر ہی زندہ ہوں تم میسر تو ہو مجھے لیکن درحقیقت میں اب بھی تنہا ہوں اب مصیبت نئی یہ ہیکہ میں تم سے مل کر اداس ہوتا ہوں ہجر میں نیند اڑ گئی ہے بس ویسے سب ٹھیک ہے میں اچھا ہوں مجھ کو...
  19. فیضان قیصر

    برائے اصلاح

    حال دل کا جو ہے سو وہ ہے کیا کریں؟ کیا ضروری ہے سب کو سنایا کریں؟ غم گساری پہ ہے کون قادر یہاں؟ کس لیے غم گساروں سے الجھا کریں؟ آپ سے ہے مری وحشتوں کو حسد آپ بے حد ضروری ہیں سمجھا کریں اس طرح سے تو تکلیف بھی ہے بہت کب تلک جھوٹی امید باندھا کریں؟ آج کا دن بھی مانا گزر جائے گا ہم فقط کیا...
  20. فیضان قیصر

    غزل براٗٗئے اصلاح

    ہجر جیسا بھی تھا سہا میں نے کیا کسی سے بھی کچھ کہا میں نے مجھ کو میری خبر نہیں ملتی ہر جگہ سے پتہ کیا میں نے میں محبت کو ڈھونڈھنے نکلا اور خود کو ہی کھو دیا میں نے آہ دل میں دبا کے رکھی تھی یوں انا کو بچا لیا میں نے چین یوں بھی نہیں ملا دل کو اب تو گھر بھی بنا لیا میں نے ایک تم ہی نہیں...
Top