برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
ان دنوں اس طرح سے الجھا ہوں

پل میں تولا ہوں پل میں ماشہ ہوں

تم حقیقت نہیں ہو لیکن میں

اب اسی جھوٹ پر ہی زندہ ہوں

تم میسر تو ہو مجھے لیکن

درحقیقت میں اب بھی تنہا ہوں

اب مصیبت نئی یہ ہیکہ میں

تم سے مل کر اداس ہوتا ہوں

ہجر میں نیند اڑ گئی ہے بس

ویسے سب ٹھیک ہے میں اچھا ہوں

مجھ کو جھوٹے دلاسے مت دیجے

میں فقط بات کرنے آیا ہوں

جھوٹ دکھتا ہے آئینے میں کیا؟

میں بھلا کب تمھارے جیسا ہوں ؟

جب میں کہتا ہوں ٹھیک ہوں بالکل

تب میں فیضان جھوٹ کہتا ہوں
 
آخری تدوین:
مکرمی فیضانؔ بھائی، آداب!
ان دنوں اس طرح سے الجھا ہوں
پل میں تولا ہوں پل میں ماشہ ہوں
پل میں تولا پل میں ماشہ کا محاورہ عموماً متلون مزاجی کی جانب اشارہ کرنے کے لئے بولا جاتا ہے یعنی پل بھر میں بیان، موقف سے پھر جایا جائے۔
الجھاؤ کے ساتھ اس کا ربط اتنا فصیح معلوم نہیں ہوتا۔

مجھ کو جھوٹے دلاسے مت دیجے
میں فقط بات کرنے آیا ہوں
دونوں مصرعوں کا ربط واضح نہیں ہوسکا مجھ پر۔

جھوٹ دکھتا ہے آئینے میں کیا؟
میں بھلا کب تمھارے جیسا ہوں ؟
’’دکھتا‘‘ پر کچھ روز قبل ہماری بھی گرفت ہوئی ہے :) یہ لفظ درست نہیں۔ یوں سوچ کر دیکھیں،
آئینہ بھی دروغ گو ہے کیا؟
میں بھلا کب تمہارے جیسا ہوں؟
اگرچہ میری رائے میں مفہوم اب بھی مبہم ہے، اور قاری کو بہت سی پس نوشت خود فرض کرنا پڑے گی۔ بعض اوقات یہ کیفیت شعر کا حسن بھی بن جاتی ہے، سو حتمی فیصلہ اساتذہ کی رائے پر موقوف کردیتے ہیں۔

جب میں کہتا ہوں ٹھیک ہوں بلکل
تب میں فیضان جھوٹ کہتا ہوں
بلکل = بالکل، املا کی غلطی درست کر لیجئے۔
دونوں مصرعوں کی بنت مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے، آپ متبادل صورتیں سوچ کر دیکھیں۔ مثلاً
میں جو کہتا ہوں، ٹھیک ہوں، فیضانؔ
درحقیقت یہ جھوٹ کہتا ہوں!

باقی کے اشعار مجھے تو ٹھیک لگے۔ یہ شعر خاص طور پر پسند آیا ۔۔۔ آپ کے دستخطی بےساختہ انداز بیان کا حامل :)
ہجر میں نیند اڑ گئی ہے بس
ویسے سب ٹھیک ہے میں اچھا ہوں
بس دوسرے مصرعے میں چونکہ ’’ویسے‘‘ کی ی گر رہی ہے، اس لئے ویسے اور سے کے درمیان ہلکا سا تنافر پیدا ہورہا ہے، جس کو دور کیا جاسکتا ہے، مثلاً
باقی سب ٹھیک ہے، میں اچھا ہوں
(یہاں اگر باقی کی ی کا اسقاط گوارہ نہ ہو، تو کچھ بھی لایا جاسکتا ہے، مشق آپ کے حوالے :) )

دعاگو،
راحلؔ
 
Top