نتائج تلاش

  1. محمد شکیل خورشید

    کینوس جا بجا پھٹا ہوا تھا - ایک نئی کاوش

    وقت کی دھول میں اٹا ہوا تھا کینوس جا بجا پھٹا ہوا تھا گھر کے اندر نگاہ جاتی تھی پردہ دروازے سے ہٹا ہوا تھا وہ بھی یکسو نہ تھا محبت میں دھیان میرا بھی کچھ بٹا ہوا تھا دیکھتا تھا میں راستے گم ہیں لوگ کہتے ہیں میں ڈٹا ہوا تھا ظلمتِ شہر بڑھتی جاتی تھی اور مرا حوصلہ گھٹا ہوا تھا تیز تھی رخشِ عمر...
  2. محمد شکیل خورشید

    تازہ کاوش: جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے

    ذرا سی دیر کو اس درد سے مفر دے دے جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے نہ ہاتھ مجھ سے دعا کے لئے اٹھے لیکن خبیر ہے تو مری آہ میں اثر دے دے خوشی سے ساتھ ترے صبحِ نو ، سفر پہ چلوں تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے مری نوا میں نہیں سوزکی وہ گہرائی جو میرے درد کو اک آہِ معتبر دےدے میں جانتا...
  3. محمد شکیل خورشید

    تازہ غزل

    کہانی اک سنانی ہے جو بیتی ہے بتانی ہے صحیفہ درد پیہم کا نہیں لکھا ، زبانی ہے ضروری بات کرنی تھی اگرچہ کچھ پرانی ہے سرِ بازار بیٹھے ہیں فقط اتنی کہانی ہے مقدر کے مزاروں پر نئی چادر بچھانی ہے کسے سمجھائیں گے جا کر بڑی مبہم کہانی ہے محبت کر تو بیٹھے ہیں کہو کیسے نبھانی ہے بڑی تاریک ہے یہ شب...
  4. محمد شکیل خورشید

    نئی زندگی سے متعلق ایک غزل

    صبحِ نو کی نوید ہوتی ہے جب ہمیں ان کی دید ہوتی ہے ایک گونہ سکون ملتا ہے جب بھی گفت و شنید ہوتی ہے اجنبیت کہاں رہی اب تو روز ملتے ہیں عید ہوتی ہے مے سے مطلب ہمیں ، ہماری تو اس نظر سے کشید ہوتی ہے ہم بھی بے اختیار ہیں کہ شکیل دل کو ان سے امید ہوتی ہے ہر شعر کے پہلے لفظ کو ملایا جائے تو زوجہ...
  5. محمد شکیل خورشید

    یونہی تخلیقِ فن نہیں ہوتی

    دور دل کی چبھن نہیں ہوتی گو جبیں پر شکن نہیں ہوتی کچھ طبیعت میں میل ہوتا ہے بے سبب یہ لگن نہیں ہوتی مصلحت کوش ہے یہ شہر یہاں رسمِ دار و رسن نہیں ہوتی یہ تو دوری میں سانس رکتی ہے قربتوں میں گھٹن نہیں ہوتی کیا کہیں کیا عذاب ہیں اس میں یونہی تخلیقِ فن نہیں ہوتی کہتے لہجہ نڈھال ہوتا ہے بات میں...
  6. محمد شکیل خورشید

    غزل: ۔۔۔میں نہیں جانتا

    ایک تازہ غزل احباب کے ذوق کی نذر میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا دل نہیں مانتا میں نہیں جانتا اس زمانے میں مکر و فریب و دغا کیسے پہچانتا میں نہیں جانتا کیا ہے منشا مری کیا مری ہے رضا دل ہے کیا ٹھانتا میں نہیں جانتا کون خوشیاں زمانے میں بانٹے پھرے سنت یا سانتا میں نہیں جانتا مصلحت کوشی شہرِ...
  7. محمد شکیل خورشید

    غزل: عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی

    ایک تازہ غزل احباب کی نذر عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی انسیت جب بڑھی ہے تھوڑی سی اب تسلی ہوئی ہے تھوڑی سی بات آگے چلی ہے تھوڑی سی پھر تری یاد کے دریچے سے زندگی دیکھ لی ہے تھوڑی سی ان سے کچھ عشق وِشق تھوڑا ہے یونہی دیوانگی ہے تھوڑی سی چار پل ان کے ساتھ جینے کو زندگی مانگ لی ہے تھوڑی سی شہر...
  8. محمد شکیل خورشید

    گھر بنا تھا کبھی مکان میں کیا

    استاد محترم الف عین کی ہدایت پر کچھ طبع آزمائی کی ہے۔ گو جناب سید عاطف علی اور جناب عرفان علوی کے کلام کے آگے چراغ کو سورج دکھانے والی بات ہے بھید ہے اتنی آن بان میں کیا تم کو شک ہے تمہاری شان میں کیا سارا جنگل ہے سانس روکے ہوئے ہے شکاری کوئی مچان میں کیا یہ جو رستہ بنا ہے لوگوں کا ٹوٹی...
  9. محمد شکیل خورشید

    گھر کا نام سرائے رکھنا

    دل میں درد چھپائے رکھنا آس امید لگائے رکھنا کیسے سیکھ لیا ہے تم نے یہ مسکان سجائے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے بھرم کو ساری عمر بنائے رکھنا رات کی تاریکی گہری ہے سوچ کا دیہ جلائے رکھنا یاد رہے دنیا رستہ ہے گھر کا نام سرائے رکھنا کون شکیل تمہیں سکھلائے ناتے رشتے نبھائے رکھنا چند سال پرانی ایک...
  10. محمد شکیل خورشید

    غزل: کچھ سفر زندگی کا باقی ہے

    داغ دل کی لگی کا باقی ہے درد اک بے کلی کا باقی ہے ہوگئے ختم یوں تو سارے مرض روگ دیوانگی کا باقی ہے باقی رستے سبھی تمام ہوئے پھیر اک اُس گلی کا باقی ہے نسلِ نو کو نوید ہو کہ ابھی قرض پچھلی صدی کا باقی ہے اور باقی نہیں ہے کوئی کمال اک ہنر بندگی کا باقی ہے گرچہ روندی گئی کلاہِ فقیر جاہ اس...
  11. محمد شکیل خورشید

    دلِ مضطر تجھے کس طور سنبھالا جائے

    کس طرح درد تری خو سے نکالا جائے دلِ مضطر تجھے کس طور سنبھالا جائے پھر سے یادوں کو تری روپ نیا پہناؤں پھر ترا درد نئے ڈھنگ سے پالا جائے کوئی بت ہے کہ خدا ہے کہ مقدس گائے اب یہ ابہام نصابوں سے نکالا جائے مذہب و نسبت و اقدار تو پہچانے گئے نئے سانچے میں نیا بت کوئی ڈھالا جائے ٹوٹنا اس سے تعلق...
  12. محمد شکیل خورشید

    اک تازہ غزل

    خواہشِ واہ واہ کس کو ہے فقر میں فکرِ جاہ کس کو ہے سانس لینا تو جبرِ قدرت ہے ورنہ جینے کی چاہ کس کو ہے ایک مسکان ظاہری سی بس ورنہ دکھ سے پناہ کس کو ہے کفر ہے نا امیدی سچ لیکن آخر اس کا گناہ کس کو ہے اک جلی لاش سینکڑوں کا ہجوم جانے یہ انتباہ کس کو ہے اک اندھیرا ہے چار سمت شکیل سوجھتی اس میں...
  13. محمد شکیل خورشید

    نعتِ رسولِ مقبول، بسلسلہ عیدِ میلاد

    مدحتِ مصطفیٰ ہو سینے میں ہے سرور اس طرح سے جینے میں ساری دنیا بھی گھوم لوں لیکن ہو مرا دھیان بس مدینے میں ڈوبنے دے گا کب کرم ان کا لاکھ ہوں چھید اگر سفینے میں رحمتیں کل جہاں پہ ہوتی ہیں ان کے میلاد کے مہینے میں نعت لب پر ہو، دل میں عشق ِ نبی عمر کٹ جائے اس قرینے میں روشنی عشقِ مصطفیٰ ہی سے...
  14. محمد شکیل خورشید

    ایک مفرد شعر

    تتلی کے پروں کے رنگ حسیں ہاتھوں پہ چھٹیں تو میل بنیں
  15. محمد شکیل خورشید

    غزل: میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں

    میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں کسی کا آزار بن گیا ہوں کسی کے زخموں کو سی رہا ہوں کسی کی فرقت کو سہہ رہا ہوں تو جھیلتا ہوں کوئی رفاقت مرے مقدر میں جو لکھے ہیں وہ زہر سارے میں پی رہا ہوں وہ مجھ سے مانوس ہو رہے ہیں کہ ظاہری سی ہے مسکراہٹ میں زندگی بھر اسی...
  16. محمد شکیل خورشید

    بات ساری اسی کے بارے کی: نئی غزل

    کھوج میں ہوں میں اک ستارے کی خوبصورت سے استعارے کی اور بھایا نہ کوئی بھی موضوع بات ساری اسی کے بارے کی جب میسر ہے اس کی یاد تو پھر کیا ضرورت کسی سہارے کی چاند پورا، خزاں رسیدہ پیڑ واہ کیا بات ہے نظارے کی ہے تمنا کہ عرضِ حال کہوں سن بھی لو التجا بچارے کی خرمنِ ہوش کو جلا ڈالے آرزو ہے...
  17. محمد شکیل خورشید

    نئی غزل: لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں

    لوٹ آئی ہیں پھر وہی راتیں وہ تری یاد وہ تری باتیں ہم سے پوچھو ہے کیا عذاب اس میں ہم نے کھائی ہیں عشق میں ماتیں ہر گھٹا لے کے اس کی یاد آئی کیسی غمناک ہیں یہ برساتیں درد، آنسو، سکوت، بے خوابی رات لائی ہے پھر یہ سوغاتیں آؤ اشکوں سے اب وضو کرلیں پھر سے کرنی ہیں کچھ مناجاتیں شہرِ یاراں میں ہے...
  18. محمد شکیل خورشید

    جانے کیا اس میں بھید بھاؤ ہے- نئی غزل

    ان کے لہجے میں جو رچاؤ ہے جانے کیا اس میں بھید بھاؤ ہے یہ نگر کھوکھلا ہے اندر سے ظاہری سب یہ رکھ رکھاؤ ہے تھک گیا ہوں سفر کی محنت سے ڈالنا اب کہیں پڑاؤ ہے ٹوٹ جائے نہ ایک دن یہ ڈور اتنا سانسوں میں کیوں تناؤ ہے دل میں اس کی حسین یادوں کا اک دہکتا ہوا الاؤ ہے یہ جو اک بے کلی سی دل میں ہے لگ...
  19. محمد شکیل خورشید

    سانس لینا چاہتا ہوں۔ ایک نئی کاوش

    غم چھپانا چاہتا ہوں گنگنانا چاہتا ہوں کر چکا سیر و سیاحت اب ٹھکانہ چاہتا ہوں بھول کر فکریں جہاں کی مسکرانا چاہتا ہوں چھوڑ کر سارے بکھیڑے بھاگ جانا چاہتا ہوں راگ پہلی چاہتوں کا پھر سے گانا چاہتا ہوں جس میں وہ تھی ساتھ میرے وہ زمانہ چاہتا ہوں اک مکاں رکھا ہے جس کو گھر بنانا چاہتا ہوں ساز...
  20. محمد شکیل خورشید

    عہدو پیمان کی کریں تجدید

    عہدو پیمان کی کریں تجدید ٹوٹ جائے کہیں نہ پھر امید مدعا ہوسکا کبھی نہ بیاں لاکھ باندھی سنوار کر تمہید شہر سارے نے سانحہ دیکھا گرچہ اخبار میں چھپی تر دید شیشہِ دل ہے آج تک خالی کوئی ابھری نہ صورتِ ناہید اک خلش زندگی میں باقی ہے جانے پژمردگی ہے یا امید وہ نہ لوٹا، کبھی سفر سے شکیل خوب...
Top