غزل: ۔۔۔میں نہیں جانتا

ایک تازہ غزل احباب کے ذوق کی نذر

میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا
دل نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اس زمانے میں مکر و فریب و دغا
کیسے پہچانتا میں نہیں جانتا

کیا ہے منشا مری کیا مری ہے رضا
دل ہے کیا ٹھانتا میں نہیں جانتا

کون خوشیاں زمانے میں بانٹے پھرے
سنت یا سانتا میں نہیں جانتا

مصلحت کوشی شہرِ جفا کی شکیل
کیسے میں جانتا میں نہیں جانتا
 
ایک تازہ غزل احباب کے ذوق کی نذر

میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا
دل نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اس زمانے میں مکر و فریب و دغا
کیسے پہچانتا میں نہیں جانتا

کیا ہے منشا مری کیا مری ہے رضا
دل ہے کیا ٹھانتا میں نہیں جانتا

کون خوشیاں زمانے میں بانٹے پھرے
سنت یا سانتا میں نہیں جانتا

مصلحت کوشی شہرِ جفا کی شکیل
کیسے میں جانتا میں نہیں جانتا
شکیل صاحب، ایسی سنگلاخ زمین چن کر آپ نے ممکنات خود ہی محدود کر لیے . :) بہر حال، اچھی کوشش ہے . داد حاضر ہے . ’بانٹے پھرے‘ کی ترکیب کچھ غیر مانوس لگی . ’بانٹتا پھرے‘ ضرور سنا ہے .
 
شکیل صاحب، ایسی سنگلاخ زمین چن کر آپ نے ممکنات خود ہی محدود کر لیے . :) بہر حال، اچھی کوشش ہے . داد حاضر ہے . ’بانٹے پھرے‘ کی ترکیب کچھ غیر مانوس لگی . ’بانٹتا پھرے‘ ضرور سنا ہے .
داد کا شکریہ عرفان علوی صاحب، بس کبھی مشکل پسندی حاوی ہو جاتی ہے۔ جیسے میں کئی جگہوں پر اس کا اظہار کرچکا کہ بحر، ردیف قافیہ شاذ ہی شعوری کوشش سے چنا ہو تو ہو، ورنہ جو جیسا بن جائے اسے ہی مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
Top