غزلِ
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے
یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے
مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج
اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے...
غزلِ
چل اب یہاں سے کسی اور کو بنانے جا
کروں یقین میں تیرا گئے زمانے جا
کہا یہ گریہ کا احوال سُن کے قاصد سے
کہ خوب آتے ہیں ٹسوے اُنھیں بہانے جا
صدا تھی دِل کی نہ مِلنے کے ہر تہیّہ پر
بس ایک بار نصیب اور آزمانے جا
بذاتِ خود بھی کہی بات پر مِلا یہ جواب
یہ سبز باغ کسی اور کو دِکھانے جا...
بدستِ دِل!
کہے ہے اب بھی وہی دِل، کہ جا بتانے جا
گُزر رہی ہے جو فُرقت میں وہ سُنانے جا
چُھپا خُلوص تُو میرا اُنھیں جتانے جا
جَبِیں بہ سنگِ درِ مہ جبیں لگانے جا
نہ چاہتے ہیں وہ مِلنا تو کوئی بات نہیں
بس ایک دِید سے اُن کی مجھے لُبھانے جا
قریب جانے کا اُن کے کہے ہے کون تجھے
دِکھا کے...
غزلِ
عُمر کا بھروسہ کیا، پَل کا ساتھ ہوجائے
ایک بار اکیلے میں، اُس سے بات ہوجائے
دِل کی گُنگ سرشاری اُس کو جِیت لے، لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہوجائے
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک اِنساں کے !
ساری زندگانی ہی، بے ثبات ہوجائے
یاد کرتا جائے دِل، اور کِھلتا جائے دِل
اوس کی طرح کوئی پات...
غزلِ
سُورج کا سفر ختم ہُوا، رات نہ آئی
حصّے میں مِرے، خوابوں کی سوغات نہ آئی
موسم پہ ہی ہم کرتے رہے تبصرہ تا دیر
دِل جس سے دُکھیں ایسی کوئی بات نہ آئی
یُوں ڈور کو ہم وقت کی پکڑے تو ہُوئے تھے
اک بار مگر چُھوٹی تو پھر ہات نہ آئی
ہمراہ کوئی اور نہ آیا تو گِلہ کیا
پرچھائیں بھی جب میری مرے...
غزلِ
جیسے مشامِ جاں میں سمائی ہُوئی ہے رات
خوشبو میں آج کِس کی نہائی ہُوئی ہے رات
سرگوشِیوں میں بات کریں ابر و باد و خاک
اِس وقت کائِنات پہ چھائی ہُوئی ہے رات
ہر رنگ جس میں خواب کا گُھلتا چلا گیا
کِس رنگ سے خدا نے بنائی ہُوئی ہے رات
پُھولوں نے اُس کا جشن منایا زمِین پر
تاروں نے...
غزلِ
مصطفیٰ زیدی
بُجھ گئی شمعِ حَرم بابِ کلِیسا نہ کُھلا
کُھل گئے زخم کے لب تیرا درِیچہ نہ کُھلا
درِ توبہ سے، بگوُلوں کی طرح گُزرے لوگ
اُبر کی طرح اُمڈ آئے جو مَے خانہ کُھلا
شہر در شہر پِھری میرے گُناہوں کی بیاض
بعض نظروں پہ مِرا سوزِ حکِیمانہ کُھلا
نازنِینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا...
غزلِ
اِک جو لے دے کے ہمیں شیوۂ یاری آیا
وہ بھی کُچھ کام نہ خِدمت میں تمھاری آیا
اُن کے آگے لبِ فریاد بھی گویا نہ ہُوئے
چُپ رہے ہم، جو دَمِ شِکوہ گُزاری آیا
آرزُو حال جو اپنا اُنھیں لِکھنے بیٹھی
قلمِ شوق پہ نامہ نِگاری آیا
واں سے ناکام پِھرے ہم تو دَرِ یاس تلک
خونِ حرماں دلِ مجرُوح...
خون بہا! وہ معاوضہ یا شرعی، عدالتی جرمانہ جو مقتول کے پسماندگان یا وارث عوض میں لیں یا انھیں بحکمِ مجاز دیا جائے
یہاں حساب لاتعداد حسرتوں کے خوں کے زمرے میں ہے، کہ یہ نہیں ایک خوں بہا دے دِیا اور حساب صاف ، گِنو
اپنی محدود سمجھ نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ لکھ دیا، آپ بہت بہتر جانتے ہیں...
غزلِ
یہ حادثہ بھی تو کُچھ کم نہ تھا صبا کے لِیے
گُلوں نے کِس لِیے بوسے تِری قبا کے لِیے
وہاں زمِین پہ اُن کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لِیے
تم اپنی زُلف بکھیرو، کہ آسماں کو بھی !
بہانہ چاہیے محشر کے اِلتوا کے لِیے
یہ کِس نے پیار کی شمعوں کو بَد دُعا دی ہے
اُجاڑ...
غزلِ
پُھونک ڈالے تپشِ غم تو بُرا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سِوا دِل میں رہا بھی کیا ہے
بے نوا ہوگا نہ اِس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے
کہِیں اِک آہ میں افسانے بَیاں ہوتے ہیں ؟
ہم نے اُس دشمنِ ارماں سے کہا بھی کیا ہے
کیا کرے، تھک کے اگر بیٹھ نہ جائے دِلِ زار...
غزلِ
بِچھڑا ہے جو اِک بار، تو مِلتے نہیں دیکھا
اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا
اِک بار جسے چاٹ گئی دُھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اُس پھول کو کِھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گِرا ہے، تو جڑیں تک نِکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی، لیکن...
سِتم سِکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دِکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا
گِنو سب حسرتیں جو خوں ہُوئی ہیں تن کے مقتل میں
مِرے قاتل حِسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دِل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اِک شب، ہر گھڑی گُزرے قیامت یُوں...
غزلِ
خُمار بارہ بنْکوی
دِل کو تسکینِ یار لے ڈوبی
اِس چمَن کو بہار لے ڈوبی
اشک تو پی گئے ہم اُن کے حضُور
آہِ بے اختیار لے ڈوبی
عِشق کے کاروبار کو اکثر
گرمئِ کاروبار لے ڈوبی
حالِ غم اُن سے بار بار کہا
اور ہنسی بار بار لے ڈوبی
تیرے ہر مشورے کو اے ناصح
آج پھر یادِ یار لے ڈوبی...
غزلِ
شفیق خلش
مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے
جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے
جوحال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے
تھکتے نہیں یہ کہہ کے، مِرے ہمنشیں رہے
قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے
خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے
زرخیزئ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر
زیرِ...