مصطفیٰ زیدی ::::: بُجھ گئی شمعِ حَرم بابِ کلِیسا نہ کُھلا ::::: Mustafa Zaidi

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

مصطفیٰ زیدی

بُجھ گئی شمعِ حَرم بابِ کلِیسا نہ کُھلا
کُھل گئے زخم کے لب تیرا درِیچہ نہ کُھلا

درِ توبہ سے، بگوُلوں کی طرح گُزرے لوگ
اُبر کی طرح اُمڈ آئے جو مَے خانہ کُھلا

شہر در شہر پِھری میرے گُناہوں کی بیاض
بعض نظروں پہ مِرا سوزِ حکِیمانہ کُھلا

نازنِینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی
لاکھ پہروں میں بھی کاشانے پہ کاشانہ کُھلا

اب جو بےباک ہُوئے بھی تو بہ صد اندیشہ
اب جو اِک شخص کُھلا بھی تو حِجابانہ کُھلا

مِل کے بھی تجھ سے رہی اب کے طبیعت ایسی
جیسے بادل سا گِھر آیا جو نہ برسا، نہ کُھلا

ہم پری زادوں میں کھیلے شبِ افسُوں میں پَلے
ہم سے بھی تیرے طلِسمات کا عُقدہ نہ کُھلا

ایک اِک شکل کو دیکھا ہے بڑی حیرت سے
اجنبی کون ہے اور کون شناسا، نہ کُھلا

ریت پر پھینک گئی عقل کی گُستاخ لبی
پھر کبھی کشف و کرامات کا دریا نہ کُھلا

مصطفیٰ زیدی
 
Top