طارق شاہ

محفلین
غزلِ

پُھونک ڈالے تپشِ غم تو بُرا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سِوا دِل میں رہا بھی کیا ہے

بے نوا ہوگا نہ اِس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے

کہِیں اِک آہ میں افسانے بَیاں ہوتے ہیں ؟
ہم نے اُس دشمنِ ارماں سے کہا بھی کیا ہے

کیا کرے، تھک کے اگر بیٹھ نہ جائے دِلِ زار
اِک خرِیدار نہیں جِنسِ وَفا بھی کیا ہے

تم ہوغمخوار، تمھیں اِتنا تکلّف کیوں ہے
زہردے دو مجھے، اب میری دوا بھی کیا ہے

زندگی چھین لے بخشی ہُوئی دولت اپنی
توُ نے خوابوں کے سِوا مجھ کو دِیا بھی کیا ہے

ہم نے اُس بت کو کلیجے سے لگایا ہے، جسے
ہے یہ پندارِ خُدائی کہ خُدا بھی کیا ہے

دیدۂ حُسن بھی، بے خواب ہُوئے جاتے ہیں
نالۂ اخترِ شورِیدہ نوا بھی کیا ہے


سعید احمد اختر
https://en.wikipedia.org/wiki/Saeed_Ahmad_Akhtar
 
آخری تدوین:
Top