به هوش باش دلی را به سَهْو نخراشی
به ناخنی که توانی گِرهگشایی کرد
(صائب تبریزی)
ہوشیار رہو کہ جس ناخن سے تم گِرہ کشائی کر سکتے ہو کہیں اُس سے کسی دل کو غلطی سے نہ خراش دو۔
(رباعی)
اندر دلِ من مها دلافروز تویی
یاران هستند لیک دلسوز تویی
شادند جهانیان به نوروز و به عید
عیدِ من و نوروزِ من امروز تویی
(مولانا جلالالدین رومی)
اے ماہ! میرے دل کے اندر دل افروز تم ہو؛ یاراں موجود ہیں، لیکن مُشفِق و مہرباں تم ہو؛ مردُمِ دنیا نوروز اور عید پر شاد ہیں؛ [لیکن] میری عید اور...
صبا از شرم نتْواند به رویِ گل نگه كردن
كه رَخْتِ غنچه را وا كرد و نتوانست ته كردن
(شاہ عباس ثانی صفوی)
صبا شرم سے گُل کے چہرے کی جانب نگاہ نہیں کر سکتی، کیونکہ اُس نے غنچے کا لباس کھول دیا اور پھر وہ تہہ نہ کر سکی۔
عقل میباشد غبارِ دیدهٔ مجنونِ ما
خاکِ صحرایِ جنون در چشمِ عاشق توتیاست
(نقیب خان طُغرل احراری)
عقل ہمارے دیدۂ مجنوں کا غبار ہے؛ [جبکہ] صحرائے جُنوں کی خاک چشمِ عاشق میں سُرمہ ہے۔
هیچ کس طغرل نباشد تکیهگاهِ هیچ کس
آنکه در افتادگی دستِ ترا گیرد خداست!
(نقیب خان طُغرل احراری)
اے طُغرل! کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کی پُشت و پناہ نہیں ہے۔۔۔ وہ کہ جو اُفتادگی میں تمہاری دست گیری کرتا ہے [فقط] خدا ہے۔
يا لَلرِّجالِ! أَما لِلّٰهِ مُنْتَصِفٌ
مِنَ الطُّغاةِ؟ أَما لِلدِّينِ مُنْتَقِمُ؟
(أبو فِراس الحمداني)
اے مردو! آیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی خاطر، طاغیوں اور سرکَشوں سے انصاف اور اپنا حق لے لے؟ آیا کوئی نہیں ہے جو [اُن سے] دینِ خدا کا انتقام لے لے؟
عزیز میاں قوّال نے اپنی ایک قوّالی میں کہا ہے:
رومی و حافظ و خیّام کا دیکھا ہے کلام؟
جام و مینا کے لبادے میں طریقت ہے تمام
یہ نہیں معلوم کہ یہ شعر خود اُن کا ہے یا کسی دیگر کا۔
عُمَر پنجهبرپیچِ دیوِ مَرید
اِس مصرعے میں مَرید (نہ کہ مُرید) دیو کی صفت ہے۔ دیوِ مَرید یعنی شیطانِ سرکَش و طاغی۔
جبکہ 'پنجهبرپیچ' کا معنی ہے وہ شخص جو پنجہ موڑ دیتا ہو۔ 'پنجهبرپیچِ دیوِ مَرید' یعنی شیطانِ سرکش کا پنجہ موڑ دینے والا۔