مغل صاحب آپ کو شعر پسند آیا یا نہیں آیا اسے چھوڑ دیں۔ صرف یہ بتائیے گا کہ اس شعر میں کونسی تلمیح استعمال کی گئی ہے؟
زہر پی کر امر ہوا اک شخص
کیوں نہ ہم بھی کوئی پُڑی پھانکیں
بہت خوب غزل ہے کاشفی صاحب۔ ایک شعر کھٹک رہا ہے۔ وارث صاحب سے اور کاشفی صاحب سے گزارش ہے کہ اسے دیکھیے گا۔ کیا یہ ایسے ہی ہے؟
مر کے راحت تو ملی پر یہ ہے کھٹکا باقی
آکے عیسٰی نہ سر بالیں کہیں قم مجھ کو
یا کہ ایسے
مر کے راحت تو ملی پر یہ ہے کھٹکا باقی
آکے عیسیٰ سر بالیں نہ کہیں قُم مجھ کو
بہت شکریہ وارث صاحب۔ مجھے تو ساری غزل ہی پسند آئی لیکن مقطع سے مجھے غالب کا شعر یاد آگیا۔
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
;)
غزل
ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ وہ نین ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے
اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے
پلکیں تری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں
افواجِ قاہرہ کے نہ برہم پرے ہوئے
انکھیوں کو تیری کیونکہ میں باندھوں کہ یہ غزال
جاتے ہیں میرے دل کی زراعت...
قبلہ یہ میری غزل نہیں ۔ اپنے اعتراضات کے جواب غزل کے شاعر سے مانگیں۔ یہ میری غزل نہیں ہے۔ آئیندہ آپ بھی کوئی پسندیدہ کلام پوسٹ کریں گے تو انشااللہ اس کی ایسی ہی قطع و برید کروں گا۔
:)
میرا خیال اے کہ اے نظم امرتا پریتم ہوراں نے ساحر لدھیانوی دے بارے کئی ہووے گی کیونکہ امرتا نوں ساحر نال عشق سی۔ اور ایس عشق دا اونہاں دے شوہر نوں وہ پتہ سی۔ لیکن بڑا پاک اور خوبصورت عشق سی۔
اگر کسی معزر ممبر کے پاس شاذ تمکنت کی نظم جس کا عنوان مجھے یاد نہیں رہا لیکن چند مصرعے یاد ہیں، شئیر کر سکیں تو بہت عنایت ہوگی۔
میں نے دیکھے ہی نہیں جور و جفا کے انداز
چمنِ عشق میں پائی ہی نہیں بوئے رقیب
مطلعِ عشق پہ ابھرا ہی نہیں روئے رقیب