شاہ جی یہ آپ کا حسن ظن ہے۔۔۔ اللہ اس کا بھرم قائم رکھے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم مل جل کر ارتقائی عمل میں کسی نہ کسی طرح سے شریک رہتے ہیں۔
اللہ سبحان و تعالیٰ آپ کو سدا خوش و خرم رکھے۔ آمین
ہفتے والے دن خانپور ڈیم اور اس کے گردونواح میں موجود مالٹے کے باغات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اسی حوالے سے ریڈ بلڈ مالٹوں کی ایک تصویر پیش خدمت ہے۔ معلومات میں اضافے کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ سامنے والے دو بےحد میٹھے تھے۔
شاہ صاحب آپ کا مراسلہ یقینی طور پر ادب سے آپ کی محبت اور انسیت اور بیان پر آپ کی دسترس کا عکاس ہے۔۔۔ ہم بھلا اس کو حذف یا تبدیل کرنے کا کہہ کر اپنی کور ذوقی کو کیوں آشکار کریں گے۔ چونکہ شاعری اور بیان کے حوالے سے میرا علم بہت محدود ہے۔ سو اس پر موازنہ یا تبصرہ کرنے کا خود کو اہل نہیں پاتا۔ اللہ...
نہیں جنااب۔۔۔۔ 1958۔۔۔ جون ایلیا نے پاکستان آنے کے بعد ایک رسالہ "انشا" کے نام سے شروع کیا تھا جس کے وہ مدیر بھی تھے۔ یہ مضموں پہلی بار 1958 میں اس میں شائع ہوا تھا۔ :)
اگر کہتے ہیں تو کتاب سے صفحے کی تصویر لے کر اٹیچ کر دوں حوالے کے لیے۔۔۔۔
چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کا احساس
مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی...
پاکستان کا ایک اور مضحکہ خیر قانون یہ بھی ہے کہ آپ ایک صوبے کی گندم دوسرے صوبے میں نہیں لے جا سکتے۔ میرا شہر چونکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان، تینوں سے متصل ہے۔ اس لیے ہمیں اور وہاں کے دیگر زمینداروں کو بےحد مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ہر صوبے کی داخلی چوکی پر پولیس والوں کو نذرانے دینے پڑتے ہیں۔