چلتے چلتے ایک اور نکتہ دیکھ لیجئے:
ال تعریفی عربی کا خاصہ ہے اس کے ساتھ ترکیب سازی صرف عربی اسماء میں ہو سکتی ہے۔
’’جوان العمر‘‘ درست ترکیب نہیں ہے۔ ’’الشہباز‘‘ کوئی لفظ نہیں۔
زیر اور واو کے ساتھ تراکیب سازی (مرکب توصیفی یا مرکب اضافی) صرف عربی اور فارسی اسماء و افعال میں جائز ہے۔ ’’چاہت‘‘ نہ فارسی ہے نہ عربی؛ یہ مقامی (عرفِ عام میں ہندی) ہے۔ اس کا مصدر ’’چاہنا‘‘ ہے؛ چاہ، چاہت، چہیتا، چہیتی۔
وضاحت مزید: چاہ (کنواں) فارسی کا ہے: چاہِ یوسف، چاہ کَن را چاہ درپیش۔...
آپ کی یہ کاوش بھی اچھی لگی، امجد علی راجا صاحب۔
’’قابلِ چاہت‘‘ درست ترکیب نہیں ہے، ’’نوچے ہیں‘‘ کی بجائے ’’نوچا ہے‘‘ کر کے دیکھ لیجئے۔ باقی ساری غزل مناسب ہے۔
اب کیسی ہے آپ کی صحت، طبیعت، مزاج؟
جناب سید شہزاد ناصر صاحب۔
ہم تو خود کو اس ایک شعر کے قابل نہیں بنا پائے:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
رکھتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال جیسی کثیرالجہات شخصیت کے بارے میں میرے جیسا فقیر کیا عرض کرے گا۔ فوری تأثر کے طور پر عرض کروں کہ اقبال (رحمہ اللہ) جیسی شخصیات کا ماتم نہیں کِیا کرتے۔ اُن کے نقوشِ فکر کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کِیا کرتے ہیں۔
اللہ توفیق دے۔ آمین!
لکیرنا (لکیر مارنا، خط کھینچنا، لکھنا)، تقصیرنا (غلطی کرنا، غلطی پر ٹھہرانا)، تدبیرنا (تدبیر کرنا)، تنویرنا (چمکانا)؛ وغیرہ۔
ایسے نوساختہ مصادر کے مشتقات میں نے دورِ حاضر کے ایک دو معروف شاعروں کے ہاں قوافی کے طور پر دیکھے ہیں۔
اس پر اہل الرائے اور اہلِ زبان کیا فرماتے ہیں؟
اپنے منیر انور ہوری بڑے ڈوہنگے نیں! جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
اینہاں دی ’’مشوم‘‘ جیہی مورت تے نہ جانا! ۔۔۔ کچھ کچھ جھلکی اپنے انٹرویو وچ کرا گئے نیں۔ :)
اپنا ای میل ایڈریس دے دیو، منیر صاحب نوں۔ کدے لوڑ پے ای جاندی اے۔
اللہ خوشیاں نصیب کرے!