جی ناز پری صاحبہ کچھ مصروف ہیں جس کی وجہ سے یہاں نہیں آ رہی ہے اب تو لگتا ہے مشکل ہی ہے کیونکہ میرے روم میں بھی ایک اور بندہ آ گیا ہے جس کی وجہ سے اب میرا س کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا کرے گا انشاءاللہ عید کے بعد ملاقات ہو گی
کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر
جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر
ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رہا ہو پہلی بار سمندر
آج نا جانے دوں گا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر
دھاڑیں مار سمندر چاہے ٹھاٹھیں مار سمندر
صحرا پار کیا ہے میں نے کر...
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
یہ غزل کون سے محسن صاحب کی ہے یہ مجھے پتہ نہیں اس غزل کا میں نےصرف ایک ہی شعر پڑھا تھا
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
محسنؔ روز دُعائیں مانگیں زخمی ہاتوں والے لوگ
یہ والا شعر مجھے بہت پسند آیا اور یہ میں نے ان دنوں سنا تھا...
ابو عثمان بھائی میں یہاں خوش ہوں یا نہیں اس کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اتنا ضرور پتہ ہے اگر میں پاکستان ہی رہتا تو جو کچھ کر سکا ہوں یا جو کچھ کر رہا ہوں وہ نا کر سکتا میں نے یہاں رہ کر اپنے لیے اور بہت ساروں کے لیے تھوڑا تھوڑا کچھ نا کچھ کیا ہے
جی ابھی میں نے کوشش ہی نہیں کی ایک ماہ پہلے انشاءاللہ سیٹ کروانی ہے
اور عبداللہ بھائی بچنے کے لیے ہی تو جا رہا ہوں سنا ہے شادی کرنے سے انسان بہت سے بُرائیوں سے بچ جاتا ہے
اختر رضا سلیمی نوجوان شعراء میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ یہ ایسے شاعر ہیں جنوں نے بہت کم وقت میں اپنا نام پیدا کیا ان کی بہت سی غزلیں ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں جن میں سے ایک “دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا۔” بھی شامل ہے پہلی بار یہ غزل میں نے ایک مشاعرے میں ان کی ہی زبانی سنی اس کے بعد فتح جنگ...