دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا ۔ اختر رضا سلیمی

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اختر رضا سلیمی نوجوان شعراء میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ یہ ایسے شاعر ہیں جنوں نے بہت کم وقت میں اپنا نام پیدا کیا ان کی بہت سی غزلیں ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں جن میں سے ایک “دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا۔” بھی شامل ہے پہلی بار یہ غزل میں نے ایک مشاعرے میں ان کی ہی زبانی سنی اس کے بعد فتح جنگ مشاعرے میں جب انھوں نے یہ غزل سنائی تو اس غزل کو بہت پسند کیا گیا اس غزل کے بعد مشاعری میں جان سی پڑگئی اس غزل کے ایک شعر کے حوالے سے ایک تقریب یاد آ گئی جس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اختر رضا سلیمی صاحب کی کتاب کی تقریبِ رونمائی تھی سلیمی صاحب کو جب کلام کی دعوت دی گئی تو انھوں نے اس وقت بھی یہ غزل سنائی غزل مکمل ہونے کے بعد سٹیچ سکٹری جو سلمی صاحب کے دوست تھے (نام مجھے یاد نہیں) انھوں نے اس غزل کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا وہ کچھ یوں تھا
” ہم سب بیٹھے ہوئے سلمی سے کلام سن رہے تھے کہ سلمی نے یہی غزل سنائی غزل ختم ہونے کے بعد میں نے سلمی سے سوال کیا یار سلمی جب یہ شعر تم اپنی بیگم کو سناتے ہوگے تو پھر کیا جواز پیش کرتے ہوگے اس شعر کا

تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید
کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا
تو سلمی نے کہا جب میں یہ شعر اپنی بیگم کو سناتا ہوں تو ہاتھ کا اشارہ اوپر کی طرف کرتا ہوں کہ میں تیرا ہوتو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا یعنی اللہ کا “
یہ بات سن کر تقریب میں موجود تمام لوگوں ہنستے بھی رہے اور تالیاں بھی بجاتے رہے بس یوہی یہ واقعہ یاد آ گیا تو سوچا غزل کے ساتھ یہ بھی سنا دوں

غزل
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا
تمہارا ہو کے بھی ممکن ہے میں رہوں اس کا
زمیں کی خاک تو کب کی اڑا چکے ہیں ہم
ہماری زد میں ہے اب چرخِ نیلگوں اس کا
تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید
کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا
اب اس سے قطع تعلق میں بہتری ہے مری
میں اپنا رہ نہیں سکتا اگر رہوں اس کا
دلِ تباہ کی دھڑکن بتا رہی ہے رضا
یہیں کہیں پہ ہے وہ شہر پُر سکوں اس کا​
 
Top