پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!

یہ غزل کون سے محسن صاحب کی ہے یہ مجھے پتہ نہیں اس غزل کا میں نےصرف ایک ہی شعر پڑھا تھا

پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
محسنؔ روز دُعائیں مانگیں زخمی ہاتوں والے لوگ

یہ والا شعر مجھے بہت پسند آیا اور یہ میں نے ان دنوں سنا تھا جن دنوں ڈھوک حسو کی سڑک بن رہی تھی تو دو بزرگ گرمی میں پتھر کوٹ رہے تھے اور جب جب میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ شعر یاد آتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے یا اللہ ایسے لوگ جو سختی میں زندگی گزار رہے ہیں ان پر آسانیاں فرما دے آمین



جانے اب کس دیس ملیں گے اُنچی ذاتوں والے لوگ؟
نیک نگاہوں سچّے جذبوں کی سوغاتوں والے لوگ
پیاس کے صحراؤں میں دُھوپ پہن کر پلتے بنجارو۔!
پلکوں اوٹ تلاش کرو بوجھل برساتوں والے لوگ
وقت کی اُڑتی دُھول میں اپنے نقش گنوائے پھرتے ہیں
رِم جھِم صبحوں روشن شاموں ریشم راتوں والے لوگ
ایک بھکارن ڈھونڈ رہی تھی رات کو جھوٹے چہروں میں
اُجلے لفظوں سچّی باتوں کی خیراتوں والے لوگ
آنے والی روگ رُتوں کا پُرسہ دیں ہر لڑکی کو !
شہنائی کا درد سمجھ لیں گر باراتوں والے لوگ
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
محسنؔ روز دُعائیں مانگیں زخمی ہاتوں والے لوگ
 

طالوت

محفلین
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
محسنؔ روز دُعائیں مانگیں زخمی ہاتوں والے لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے کاش !
شکریہ اس خوبصورت کلام کے لئے ۔
وسلام
 
Top