کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر از سعید دوشی

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر

جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر



ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں

جیسے کوئی دیکھ رہا ہو پہلی بار سمندر



آج نا جانے دوں گا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر

دھاڑیں مار سمندر چاہے ٹھاٹھیں مار سمندر



صحرا پار کیا ہے میں نے کر کچھ سر کا صدقہ

مجھ پر وار سمندر کوئی ٹھنڈا ٹھار سمندر



جتنی آسانی سے میں نے تجھ کو پار کیا ہے

کیا تو ایسے کر سکتا ہے مجھ کو پار سمندر



جنم جنم کی پیاس بھری ہے میری اس مٹی میں

میرے ذرے ذرے کو ہے اب درکار سمندر



اک بحرِ مردار کی صورت اور ایک بحرِ الکاہل

میرے ساتھ کہاں تک چلتے یہ بیمار سمندر



میں سیراب کروں صحراؤ میری آنکھ میں آؤ

پیاس تمہاری ہے ہی کتنی بس دو چار سمندر



رانا سعید دوشی
 
Top