شامِ فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
گلوکارہ: فریدہ خانم
شاعر: فیض احمد فیض
شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
بزمِ خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی
جب تجھے یاد کرلیا، صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا...
ہارٹ اٹیک (نظم) از فیض احمد فیض بزبان ضیا محی الدین
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں...
بہت خوب غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ دو اشعار میں شاید سہو ہے ہو سکے تو انہیں دوبارہ دیکھ لیں۔
اس شعر میں شاید "بج" ہونا چاہیے۔
ہجر کی اک شب میں گھڑیاں بچ چُکی ہیں دو ہزا
اے فلک سمجھوں گا میں روز حساب آنے کو ہے
اس شعر میں شاید "کھنچ کھنچ کے" ہونا چاہیے۔
جوش گل کی کشمکش میں آگیا سبزہ کو غش
شیشہء...
بہت شکریہ فاتح صاحب، جیا راؤ صاحبہ اور مجاز صاحب!
فاتح صاحب آپ نے ٹائپنگ اغلاط کی طرف توجہ نہیں دلائی۔ اب میں نے دوبارہ دیکھا تو کچھ اغلاط نظر آئیں ہیں۔ انہیں درست کر دیا ہے اس لئے آپ کو یہ نظم از سرِ نو پڑھنا پڑے گی۔ :)
ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں...
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی
سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے
اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا
کوئی روئے گزراں تھی گویا
ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے
آلام کے اشجار وہاں
برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے
پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،
کبھی ارمانوں کے...
بوچھی یہ کام میری بیوی تو کر سکتی ہے میں نہیں۔ :) میں تو تجربہ کر رہا تھا کہ امیج شیک کی تصاویر ٹھیک کس طرح نظر آئیں گی لیکن کوئی بھی طریقہ کامیاب نہ ہو سکا۔