غزل
وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجئے
رات دِن صورت کو دیکھا کیجئے
چاندنی راتوں میں اِک اِک پُھول کو
بے خُودی کہتی ہے سجدہ کیجئے
جو تمنّا بر نہ آئے عُمر بھر
عُمر بھر اُس کی تمنّا کیجئے
عشق کی رنگینیوں میں...
جی یہ ناصر کاظمی کی غزل ہے۔
غزل
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب...
غزل
جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق
آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق
کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق
ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق
سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق
دل مرا شیشہ...
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
گلوکار: مہدی حسن
شاعر: مرزا غالب
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں...
بہت شکریہ فاتح صاحب۔ غلام علی نے حیرت انگیز طور پر یہ غزل اچھی گائی ہے۔ مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔ :)
بہت شکریہ وارث صاحب۔
جناب، حج کس کافر نے کیا ہے جو ثواب جاتا رہے گا۔ یہ تو پھانسنے کے لئے کہا تھا۔ ;)