ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید...
بے ججابانہ چلے آئیے کاشانے میں
آپ کے غم کے سوا کون ہے غم خانے میں
فتنہ انگیز نہ ہو گیسوئے مشکیں کو نہ کھول
تابِ زنجیر نہیں ہے ترے دیوانے میں
(عبدالقادر جیلانی یعنی غوث الاعظم کے فارسی اشعار کا منظوم ترجمہ)
ناصر صاحب، پہلی غزل جو آپ نے شروع میں پوسٹ کی ہے۔ وہ مکمل دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔ امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہو گا۔
گلزار ِ جہاں میں گُل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کرصبحِ خزاں،سب نازعبث اک خواب ہیں ہم
کِس ماہِ لقا کے عشق میں یوں بے چین ہیں ہم، بے تاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح...
واہ واہ! بہت خوب انتخاب ناصر صاحب۔ اختر شیرانی کی تمام تخلیقات کا مطالعہ یہاں سے کیجیے اور جو کلام پسند آئے وہ اردو محفل پہ ضرور پوسٹ کیجیے۔ اس پوسٹ کو ذرا دوبارہ دیکھیے کیونکہ میرے خیال میں آپ نے شیرانی کے مختلف کلام ضم کر دیے ہیں۔ بہت شکریہ!