سید شہزاد ناصر
محفلین
گلزارِ جہاں میں گُل کی طرح، گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کر صبحِ خزاں،سب ناز عبث اک خواب ہیں ہم
دو دن کے لئے ہم آئے ہیں، اک شب کی جوانی لائے ہیں
فردوسِ سرائے ہستی میں، ہم رنگ گُلِ مہتاب ہیں ہم
ادائے پردہ کتنی دلنشیں معلوم ہوتی ہے
پسِ پردہ کوئی نازِ آفریں معلوم ہوتی ہے
یہ کس کو دیکھ کر دیکھا ہے میں نے بزمِ ہستی کو
کہ جو شئے ہے نگاہوں کو حسیں معلوم ہوتی ہے
کس کا عشق آ پہنچا ہے رسوائی کی منزل تک
نگاہِ شوخ! اب کچھ شرمگیں معلوم ہوتی ہے
مجھے میخانہ تھراتا ہوا محسوس ہوتا ہے
وہ میرے سامنے اُٹھلا کے جب پیمانہ رکھتے ہیں
جوانی بھی تو ایک موجِ شرابِ تُند و رنگیں ہے
بُرا کیا ہے اگر ہم مشربِ رندانہ رکھتے ہیں
چمن کی ہر کلی سے نور کی مستی جھلکتی ہے
در و دیوار سے مہتاب کی شوخی جھلکتی ہے
ہیں بحرِ مئے سے بہم، میکدے میں شام و سحر
کہ ماہتاب قدح، آفتاب ہے ساقی
خُدائی کہکشاں کہتی ہے جس کو
وہ سلمٰی کا خرامِ رائیگاں ہے