اس وقت تو یُوں لگتا ہے
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے...
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
حضور غلطی کی معافی۔ مذہبی بحث میرے بس کا روگ نہیں۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں :)
ارے ارے ایسا ستم نہ کیجیے گا۔ میں نے تو ازراہِ مذاق کہا تھا آپ تو بالکل سنجیدہ ہو گئے۔ شاعری دل و دماغ کو انسانی سطح پر رکھنے اور انسان کے معاشرتی معاملات کو سمجھنے کا ایک بہت اچھا اور موثر ذریعہ ہے۔
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا
تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو...
محترم خلیل الرحمان صاحب۔ مجھے آپ سے اور ممتاز شیریں سے اختلاف ہے۔ معلوم نہیں کیوں ہم اپنے ادبا کو غیر ملکی ادبا و شعرا سے ملا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ منٹو اپنی ذات میں منٹو تھا اس جیسا نہ کوئی تھا، نہ ہے اور نہ شاید کوئی ہو گا۔
ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
بالآخر اِک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغارِ اعداء
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا!
ہم جیتیں گے
حقّا ہم اِک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زَہَق الباطِل
فرمودۂ ربِّ اکبر
ہے جنت اپنے...