بہت اعلیٰ انتخاب سید زبیر صاحب! بہت شکریہ!
میرا ایک دوست ایک کتاب تالیف کر رہا ہے۔ بلکہ کچھ دنوں تک مارکیٹ میں آنے والی ہے۔ اس کتاب کا نام ہے "منٹو اور سعادت حسن" جو کہ اسی مضمون سے اخذ کیا گیا ہے۔
آپ کے سٹیٹس کا شعر دیکھ کر مجھے ایک شعر یاد آ گیا۔ شاید قتیل شفائی کا ہے۔
مقیّد کردیا یہ کہہ کر سانپوں کو سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں
لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم
نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی
ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم
واہ واہ! کیا اچھی غزل ہے۔ یہ دو اشعار تو کمال کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بہت داد قبول کیجیے کاشف عمران صاحب!
قیصرانی بھائی سوری کی کیا بات ہے۔ بٹن پریس کرنا اچھی بات ہے لیکن یہاں تو لوگ مرنے مارنے پر تل آتے ہیں۔ باتوں کا جواب لاتوں سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ :)
یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں
انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگارِ شامِ بہار
جو ایک رنگ سے تصویرِ جاں بناتے ہیں
نگاہِ ناز کچھ ان کی بھی ہے خبر تجھ کو؟
جو دھوپ میں ہیں مگر بدلیاں بناتے ہیں
ہمارا کیا ہے جو ہوتا ہے جی اداس بہت
تو گل تراشتے ہیں، تتلیاں بناتے...
معذرت میں شاید اوس ویلے جلدی وچ سی تے میں غور نہیں کیتا کہ نیرنگ خیال نے مقطع وچ "مانگ" دی بجائے "تانگ" لکھ دتا اے۔ صحیح "مانگ" ای اے جسراں اوشو صاحب نے وی ایس گل ول اشارہ کیتا ۔
ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئنے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رُخشاں ہے ارضِ لبنان
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
جو چہرے لہو کے غازے کی
زینت سے سوا پُرنور ہوئی
اب ان کے رنگیں پرتو سے
اس شہر...
نورجہاں کو لاہور سے عشق تھا۔ اسی لئے اس نے یہاں دفن ہونا پسند کیا۔ اور اس کا یہ شعر اس کے مزار کی حالت پر صد فی صد پورا اترتا ہے۔
بر مزارِ ما غریباں نے چراغے نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے