گمرہی
ریگزارِ خیال میں
شوریدہ حال پھروں
گمانِ غالب یہی تھا
کہ اب کےلوحِ ذہن پہ میں نے
سروشِ غیب کی پکار پر
جو تیرے مراتب لکھے تھے
وہ ہونگے دائمی، سرمدی
مگر جب صحرائے خیال میں
فکر کی ہلچل سے
یقین کے ٹیلوں سے ریت پھسلی
تو میں نے اسے نجانے کیوں
ترے وجود کے عدم ثبات سے قیاس کیا
اسی ندائے غیب کی...