رازِکُن وہ بتلائےگا
آخر عقدہ کھل جائےگا
تائیدِ فطرت ہے واجب
کون اُس کو یہ سمجھائےگا
شورش تو ہو گی ہستی میں
ہر عنصر جب چِلّائےگا
کُل میں ہنگامہ ہے برپا
اب جُز باغی کہلائےگا
پھر گردش میں ہیں روز و شب
ماضی خود کو دہرائےگا
قرب اُس کا جو مل جائے تو
ہر عاجز بھی اترائےگا
گر چشمِ باطن...