نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    مکمل کلام مجید امجد

    خدا (ایک اچھوت ماں کا تصور) خبر ہے تجھ کو کچھ، رلدو! مرے ننھے! مرے بالک! ترا بھگوان پرمیشر ہے اس سنسار کا پالک! کہاں رہتا ہے پرمیشر؟ ادھر آکاش کے پیچھے کہیں دور، اس طرف تاروں کی بکھری تاش کے پیچھے نہیں دیکھا؟ سویرے جوں ہی مندر میں گجر باجا پہن کر نور کی پوشاک وہ من موہنا راجا لئے "سونے کا...
  2. فرخ منظور

    مکمل کلام مجید امجد

    گھٹا سے گھٹا ! نہ رو ! مرے دردوں پہ اشک بار نہ ہو مجھ ایسے سوختہ ساماں کی غم گسار نہ ہو لپیٹ لے یہ خنک چادریں ہواؤں کی کسے طلب ہے تری مست کار چھاؤں کی تو اپنے ساتھ ہی لے چل یہاں سے جاتے ہوئے کھلونے اپنی پھواروں کے جھنجھناتے ہوئے یہ بوندیوں کی نوائیں تجھے مبارک ہوں یہ بہکی بہکی فضائیں تجھے...
  3. فرخ منظور

    مکمل کلام مجید امجد

    گر اس جہان میں جینا ہے نہ تاجِ سر کو تو بیچ اور نہ تو سریر کو بیچ گر اس جہان میں جینا ہے تو ضمیر کو بیچ حیا کو اپنی نگاہوں سے حکمِ رخصت دے زباں کو زہر ملے شہد کی حلاوت دے فریبِ سجدہ سے اپنی جبیں کو واقف کر ریا کے آنسوؤں سے آستیں کو واقف کر ہے ترے دل میں جو چنگاری اس کا نام نہ لے خودی کا...
  4. فرخ منظور

    مکمل کلام مجید امجد

    بُندا کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا ! رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں جونہی کرتیں تری نرم...
  5. فرخ منظور

    قطعات ۔ صوفی تبسم

    کتنی ہنگامہ خُو تمنّائیں مضمحل ہو کے رہ گئیں دل میں جیسے طوفاں کی مضطرب موجیں سو گئی ہوں کنارِ ساحل میں
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سمجھوتہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    سمجھوتہ لوگ کہتے ہیں، عشق کا رونا گریۂ زندگی سے عاری ہے پھر بھی یہ نامراد جذبۂ دل عقل کے فلسفوں پہ بھاری ہے آپ کو اپنی بات کیا سمجھاؤں روز بجھتے ہیں حوصلوں کے کنول روز کی الجھنوں سے ٹکرا کر !! ٹوٹ جاتے ہیں دل کے شیش محل لیکن آپس کی تیز باتوں پر سوچتے ہیں، خفا نہیں ہوتے آپکی صنف میں بھی ہے...
  7. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    رفعت (سانیٹ) کوئی دیتا ہے بہت دُور سے آواز مجھے چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں سرعتِ نور سے یا آنکھ کے "پلکارے" میں کہ فلک بھی نظر آتا ہے درباز...
  8. فرخ منظور

    میر نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا ۔ میر تقی میر

    غزل نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا شاعری تو شعار ہے اپنا بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے انتظار ہے اپنا روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات اب یہی روزگار ہے اپنا دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور اس میں کیا اختیار ہے اپنا کچھ نہیں ہم مثالِ عنقا لیک شہر شہر اشتہار ہے اپنا جس کو تم آسمان کہتے ہو سو دلوں...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی وہ تو کیا سب کے لئے فیصلہ دشوار نہیں (مصطفیٰ زیدی)

    سَودا وہ تو کیا سب کے لیے فیصلہ دشوار نہیں اک طرف برف کے ڈھیر ایک طرف شعلۂ طور اک طرف ساعتِ شب ایک طرف صبحِ نوید اک طرف آگ کی رو، ایک طرف حور و قصور اک طرف لذّتِ ہر رنگ سو وہ بھی فوراً اک طرف وعدۂ فردا سو وہ نزدیک نہ دور اس کے اس طرزِ تغافل کی شکایت کیسی ہاں مگر اس سے یہ ادنیٰ سی شکایت ہے...
  10. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    زندگی، جوانی، عشق، حسن م___ "مری ندیم کھلی ہے مری نگاہ کہاں ہے کس طرف کو مری زیست کا سفینہ رواں "وطن" کے بحر سے دور، اُس کے ساحلوں سے دور؟ ہے میرے چار طرف بحرِ شعلہ گوں کیسا؟ ہے میرے سینے میں ایک ورطۂ جنوں کیسا؟ مری ندیم کہاں ایسے شعلہ زار میں ہم جہاں دماغ میں چھپتی ہوئی ضیائیں ہیں مہیب نور...
  11. فرخ منظور

    قطعات ۔ صوفی تبسم

    اے درخشندہ مہتاب بتا ان ستاروں کی بزم میں رہ کر کتنی ہنگامہ آفریں راتیں ہم نے تنہائیوں میں کاٹی ہیں
  12. فرخ منظور

    سودا اِس چمن کی سیر میں آ یار پِیویں مِل کے مُل ۔ مرزا رفیع سودا

    اِس چمن کی سیر میں آ یار پِیویں مِل کے مُل کیا بنائے صانعِ قدرت نے رنگیں گِل کے گُل یہ نہ ہو دریا کہ جس سے گذریے پُل باندھ کر موجِ چشمِ عاشقاں دے توڑ پَل میں پِل کے پُل قتل کا کس کے کیا ہے آج ان انکھیوں نے عزم کھینچ کر تیغے رہے ہیں ابرُو اس قاتِل کے تُل عہد میں تجھ حُسن کے جس کو ہوا ہے...
  13. فرخ منظور

    مکمل افسانہ نگار اور جنسی مسائل ۔ سعادت حسن منٹو

    افسانہ نگار اور جنسی مسائل (تحریر: سعادت حسن منٹو) کوئی حقیر سے حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو،مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔ مسہری کے اندر ایک مچھّر گھس آئے تو اُس کو باہر نکالنے، مارنے اور آئندہ کے لیے دوسرے مچھّروں کی روک تھام کرنے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں—— لیکن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ...
  14. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    خواب ِآوارہ مجھے ذوقِ تماشا لے گیا تصویر خانوں میں دکھائے حُسن کاروں کے نقوشِ آتشیں مجھ کو اور ان نقشوں کے محرابی خطوں میں اور رنگوں میں نظر آیا ہمیشہ ایک رؤیائے حسیں مجھ کو سرود و رقص کی خاطر گیا ہوں رقص گاہوں میں تو اہلِ رقص کے ہونٹوں پہ آوارہ تبسم میں شباب و شعر سے لبریز اعضا کے ترنم میں...
  15. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    شاعر کا ماضی یہ شب ہائے گزشتہ کے جنوں انگیز افسانے یہ آوارہ پریشاں زمزمے سازِ جوانی کے یہ میری عشرتِ برباد کی بے باک تصویریں یہ آئینے مرے شوریدہ آغازِ جوانی کے! یہ اک رنگیں غزل لیلیٰ کی زلفوں کی ستائش میں یہ تعریفیں سلیمیٰ کی فسوں پرور نگاہوں کی یہ جذبے سے بھرا اظہار، شیریں کی محبت کا یہ اک...
  16. فرخ منظور

    ناصر کاظمی جب تک لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے ۔ ناصر کاظمی

    ایڈمن حضرات سے گذارش ہے کہ عنوان میں مطلع درست کر دیں۔ بہت شکریہ!
  17. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ایک زخمی تصوّر ۔ مصفطفی زیدی

    ایک زخمی تصوّر یہ ترا عزمِ سفر یہ مرے ہونٹوں کا سکوت اب تو دنیا نہ کہے گی کہ شکایت کی تھی میں سمجھ لوں گا کہ میں نے کسی انساں کے عوض ایک بےجان ستارے سے محبّت کی تھی اک دمکتے ہوئے پتھر کی جبیں چومی تھی ! ایک آدرش کی تصویر سے اُلفت کی تھی ! میں نے سوچا تھا کہ آندھی میں چَراغاں کر دوں میں نے...
  18. فرخ منظور

    ناصر کاظمی جب تک لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے ۔ ناصر کاظمی

    غزل جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے ذرے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے گونگا ہے تو لب بستوں سے آدابِ سخن سیکھ اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے چمک لے ناصر...
  19. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    مکافات رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انھیں زبانِ شوق بنایا...
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تشنگی ۔ مصطفیٰ زیدی

    تشنگی آپ نے جس کو فقط جنس سے تعبیر کیا ایک مجبور تخیل کی خود آرائی تھی ایک نادار ارادے سے کرن پھوٹی تھی جس کے پس منظرِ تاریک میں تنہائی تھی دلِ ناداں نے چمکتی ہوئی تاریکی کو اپنے معیار کی عظمت کا اُجالا سمجھا ہائے وہ تشنگیِ ذہن و تمنا جس نے جب بھی صحرا پہ نظر کی اُسے دریا سمجھا ناز تھا مجھ کو...
Top