فرخ منظور
لائبریرین
افسانہ نگار اور جنسی مسائل
(تحریر: سعادت حسن منٹو)
کوئی حقیر سے حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو،مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔ مسہری کے اندر ایک مچھّر گھس آئے تو اُس کو باہر نکالنے، مارنے اور آئندہ کے لیے دوسرے مچھّروں کی روک تھام کرنے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں—— لیکن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی تمام مسئلوں کا باپ، اُس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اُس وقت پردۂ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مرد کی، دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔
یہ دونوں مسئلے جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دو مختلف قسم کی بھوکیں ہیں جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے—— یہی وجہ ہے کہ ہمیں اِس وقت جتنے معاشرتی، مجلسی،سیاسی اور جنگی مسائل نظرآتے ہیں، ان کے عقب میں یہی دو بھوکیں جلوہ گر ہیں۔
موجودہ جنگ کا خونیں پردہ اگر اٹھادیا جائے تو لاشوں کے انبار کے پیچھے آپ کو ملک گیری کی بھوک کے سوا اور کچھ نظر نہیں آ ئے گا۔
بھوک کسی قسم کی بھی ہو بہت خطرناک ہے—— آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا—— روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آکر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے—— مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اُس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں۔
دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک اُن کی ماں ہے—— بھوک گدا گری سکھاتی ہے، بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے، بھو ک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے، بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے—— اس کا حملہ بہت شدید ، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کازخم بہت گہرا ہوتا ہے —— بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے۔ دیوانگی بھو ک پیدا نہیں کرتی۔
دُنیا کے کسی کونے کا مصنّف ہو، ترقیّ پسند ہو یا تنزّل پسند، بوڑھا ہو یا جوان ؛ اُس کے پیشِ نظر دُنیا کے تمام بکھرے ہوئے مسائل رہتے ہیں۔ چُن چُن کر وہ اُن پر لکھتا رہتا ہے؛ کبھی کسی کے حق میں، کبھی کسی کے خلاف۔
آج کا ادیب بنیادی طور پر آج سے پانچ سو سال پہلے کے ادیب سے کوئی زیادہ مختلف نہیں—— ہر چیز پر نئے پرانے کا لیبل وقت لگا تا ہے، انسان نہیں لگاتا—— ہم آج نئے ادیب کہلاتے ہیں، آنے والی کل ہمیں پرانا کر کے الماریوں میں بند کردے گی لیکن اِس کایہ مطلب نہیں کہ ہم بیکار جِیے، ہم نے مفت میں مغز دردی کی۔ گھڑی کی سوئی جب ایک سے گزر کر دو کی طرف رینگتی ہے تو ایک کا ہندسہ بے مصرف نہیںہو جاتا—— پورا سفر طے کرکے سوئی پھر اُسی ہندسے کی طرف لوٹتی ہے—— یہ گھڑی کا اصول بھی ہے اور دنیا کا بھی۔
آج کے نئے مسائل بھی گزری ہوئی کل کے پرانے مسائل سے بنیادی طور پر مختلف نہیں۔ جو آج کی بُرائیاں ہیں، گزری ہوئی کل ہی نے ان کے بیج بوئے تھے۔
جنسی مسائل جس طرح آج کے نئے ادیبو ں کے پیش نظر ہیں، اسی طرح پرانے ادیبوں کے پیش نظر بھی تھے—— اُنھوں نے اِن پر اپنے رنگ میں لکھا، ہم آج اپنے رنگ میں لکھ رہے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں، مجھ سے جنسی مسائل کے متعلق بار بار کیوں پوچھا جاتا ہے—— شاید اس لیے کہ لوگ مجھے ترقی ّپسند کہتے ہیں یا شاید اس لیے کہ میرے چند افسانے جنسی مسائل کے متعلق ہیں۔ یا پھر اس لیے کہ آج کے نئے ادیبوں کو بعض حضرات ’’جنس زدہ‘‘ قرار دے کر انھیں ادب، مذہب اور سماج سے یک قلم خارج کردینا چاہتے ہیں—— وجہ کچھ بھی ہو، میں اپنا نقطۂ نظر بیان کیے دیتا ہوں:
روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد—— یہ دو بہت پرانے رشتے ہیں، ازلی اور ابدی —— روٹی زیادہ اہم ہے یا پیٹ؟—— عورت زیادہ ضروری ہے کہ مرد؟ میں اِس کے متعلق کچھ نہیںکہہ سکتا، اس لیے کہ میرا پیٹ روٹی مانگتا ہے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ گیہوں بھی میرے پیٹ کے لیے اتنا ہی ترستا ہے جتنا کہ میرا پیٹ !
پھر بھی جب میں سوچتا ہوں کہ زمین نے گیہوں کے خوشوں کو بیکار جنم نہیں دیا ہوگا تو مجھے خوش فہمی ہوتی ہے کہ میرے پیٹ ہی کے لیے وسیع وعریض کھیتوں میں سنہری بالیاں جھومتی ہیں اور پھر ہوسکتا ہے کہ میرا پیٹ پہلے پیدا ہوا اور گیہوں کی یہ بچّیاں کچھ دیر بعد۔
کچھ بھی ہو لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دُنیا کا ادب صرف اِن دو رشتوں ہی سے متعلق ہے —— الہامی کتابیں بھی جن کو آسمانی ادب کہنا چاہیے، روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد کے تذکروں سے خالی نہیں۔
مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مسائل اتنے پرانے ہیں کہ ان کا ذکر الہامی کتابوں میں بھی آچکا ہے تو پھر کیوں آج کے ادیب اِن پر خامہ فرسائی کرتے ہیں—— کیوں عورت اور مرد کے تعلّقات کو بار بار کریدا جاتا ہے اور بقول شخصے عریانی پھیلائی جاتی ہے؟—— جواب اِس سوال کا یہ ہے کہ اگر ایک ہی بار، جھوٹ نہ بولنے اور چوری نہ کرنے کی تلقین کرنے پر، ساری دُنیا جھوٹ اور چوری سے پرہیز کرتی تو شاید ایک ہی پیغمبر کافی ہوتا—— لیکن جیسا آپ جانتے ہیں ، پیغمبروں کی فہرست خاصی لمبی ہے۔
ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں۔ ہم ایک ہی چیز کو، ایک ہی مسئلے کو،مختلف حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آتا ہے، دُنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور ]دنیاکو؟[ کبھی مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے قبول ہی کرے۔
ہم قانون ساز نہیں، محتسب بھی نہیں۔ احتساب اور قانون سازی دوسروں کا کام ہے ۔ ہم حکومتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن خود حاکم نہیں بنتے۔ ہم عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں لیکن معمار نہیں۔ ہم مرض بتاتے ہیں لیکن دوا خانوں کے مہتمم نہیں۔
ہم جنسیات پر نہیں لکھتے؛ جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا کرتے ہیں، یہ اُن کی غلطی ہے۔ہم اپنے افسانوں میںخاص عورتوں اور خاص مردوں کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں—— ہمارے کسی افسانے کی ہیروئن سے اگر اُس کا مرد صرف اس لیے متنفّر ہو جاتا ہے کہ وہ سفید کپڑے پسند کرتی ہے اور سادگی پسند ہے تو دوسری عورتوں کو اِسے اصول نہیں سمجھ لینا چاہیے—— یہ نفرت کیوں پیدا ہوئی اور کن حالات میںپیدا ہوئی؟——اِس استفہام کا جواب آپ کو ہمارے افسانے میں ضرور مل جائے گا۔
جو لوگ ہمارے افسانوں میں لذّت حاصل کرنے کے طریقے دیکھنا چاہتے ہیں، اُنھیں یقینا نا اُ مید ی ہوگی—— ہم دائو پیچ بتانے والے خلیفے نہیں—— ہم جب اکھاڑے میں کسی کو گرتا دیکھتے ہیں تو اپنی سمجھ کے مطابق آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیوں گر اتھا؟
ہم رجائی ہیں —— دُنیا کی سیاہیوں میں بھی ہم اُجالے کی لکیریں دیکھ لیتے ہیں۔ ہم کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے—— چکلوں میں جب کوئی ٹکہائی اپنے کوٹھے پر سے کسی راہ گزر پر پان کی پیک تھوکتی ہے توہم دوسرے تماشائیوں کی طرح نہ تو کبھی اُس راہ گزر پر ہنستے ہیں اور نہ کبھی اُس ٹکہائی کو گالیاں دیتے ہیں—— ہم یہ واقعہ دیکھ کر رُک جائیں گے——ہماری نگاہیں اُس غلیظ پیشہ ور عورت کے نیم عریاں لباس کو چیرتی ہوئی، اُس کے سیاہ عصیاں بھرے جسم کے اندر داخل ہو کر، اُس کے دل تک پہنچ جائیں گی—— اُس کو ٹٹولیں گی اور ٹٹولتے ٹٹولتے ہم خود کچھ عرصے کے لیے تصوّر میں وہی کریہہ اور متعفّن رنڈی بن جائیں گے—— صرف اس لیے کہ ہم اُس واقعے کی تصویر ہی نہیں بلکہ اس کے اصل محرّک کی وجہ بھی پیش کر سکیں۔
جب کسی اچھّے خاندان کی جوان، صحت مند اور خوب صورت لڑکی؛ کسی مریل، بد صورت اور قلاّش لڑکے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو ہم اُسے ملعون قرار نہیں دیںگے—— دوسرے، اُس لڑکی کا ماضی، حال اور مستقبل، اخلاق کی پھانسی میں لٹکادیں گے لیکن ہم وہ چھوٹی سی گرہ کھولنے کی کوشش کریں گے جس نے اُس لڑکی کے ادراک کو بے حس کیا۔
انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دُکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دُنیا کی سب عورتیں ایسا کرسکتی ہیں—— لیکن غلط کار، انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور اُن کی فصلیں کاٹتا ہے۔
زیادہ تر جنسی مسائل ہی آج کے نئے ادیبوں کی توجّہ کا مرکز کیوں بنے ہیں؟ اس کا جواب معلوم کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں—— یہ زمانہ عجیب وغریب قسم کے اضداد کا زمانہ ہے—— عورت قریب بھی ہے، دور بھی ——کہیں مادر زاد برہنگی نظر آتی ہے، کہیں سر سے لے کر پیر تک ستر—— کہیں عورت مرد کے بھیس میں دکھائی دیتی ہے، کہیں مرد عورت کے بھیس میں۔
دُنیا ایک بہت بڑی کروٹ لے رہی ہے—— ہندوستان بھی؛ جہاں آزادی کا ننھّا منّا بچّہ غلامی کے دامن سے اپنے آنسو پونچھ رہا ہے، مٹی کا نیا گھر وندا بنانے کے لیے ضد کر رہا ہے—— مشرقی تہذیب کی چولی کے بند کبھی کھولے جاتے ہیں، کبھی بند کیے جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے چہرے کا غازہ کبھی ہٹایا جاتا ہے، کبھی لگایا جاتا ہے—— ایک افراتفری سی مچی ہے—— نئے کھٹ بُنے پرانی کھاٹوں کی مونج اُدھیڑ رہے ہیں، پرانے کھٹ بُنے چلّارہے ہیں۔ہلی ہوئی چولوں سے کہیں کھٹمل نکل رہے ہیں کہیں پسّو——کوئی کہتا ہے: انھیں زندہ رہنے دو۔ کوئی کہتا ہے: نہیں، فنا کردو—— اِس دھاندلی میں، اِس شورش میں، ہم نئے لکھنے والے اپنے قلم سنبھالے، کبھی اِس مسئلے سے ٹکراتے ہیں کبھی اُس مسئلے سے۔
اگرہماری تحریروں میں عورت اور مرد کے تعلقات کا ذکر آپ کو زیادہ نظر آئے تو یہ ایک فطری بات ہے—— ملک ، ملک سے سیاسی طور پر جد ا کیے جاسکتے ہیں—— ایک مذہب دوسرے مذہب سے عقیدوں کی بنا پر علاحدہ کیاجاسکتاہے۔ دو زمینوں کو ایک قانون، ایک دوسرے سے بیگانہ کر سکتا ہے لیکن کوئی سیاست ،کوئی عقیدہ ، کوئی قانون ؛ عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا ۔
عورت اور مرد میں جو فاصلہ ہے، اس کو عبور کر نے کی کوشش ہر زمانے میں ہوتی رہے گی—— عورت اور مرد میں جو ایک لرزتی ہوئی دیوار حائل ہے، اُسے سنبھالنے اور گرانے کی سعی، ہر صدی، ہر قرن میں ہوتی رہے گی—— جو اسے عریانی سمجھتے ہیں، انھیں اپنے احساس کے ننگ پر افسوس ہونا چاہیے—— جو اسے اخلاق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اخلاق، زنگ ہے جو سماج کے اُسترے پر بے احتیاطی سے جم گیا ہے۔
جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کیے ہیں، غلطی پر ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے اِس نئے ادب کو پیدا کیا ہے—— اِس نئے ادب کو جس میں آپ کبھی کبھی اپنا ہی عکس دیکھتے ہیں اور جھنجلا اُٹھتے ہیں—— حقیقت خواہ شکر ہی میں لپیٹ کر پیش کی جائے، اُس کی کڑواہٹ دور نہیں ہوگی۔
ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں مگر اب تک جو مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رہی ہیں، اُن سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ —— نیم کے پتّے کڑوے سہی مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔
(تحریر: سعادت حسن منٹو)
کوئی حقیر سے حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو،مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔ مسہری کے اندر ایک مچھّر گھس آئے تو اُس کو باہر نکالنے، مارنے اور آئندہ کے لیے دوسرے مچھّروں کی روک تھام کرنے کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں—— لیکن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی تمام مسئلوں کا باپ، اُس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اُس وقت پردۂ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مرد کی، دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔
یہ دونوں مسئلے جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دو مختلف قسم کی بھوکیں ہیں جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے—— یہی وجہ ہے کہ ہمیں اِس وقت جتنے معاشرتی، مجلسی،سیاسی اور جنگی مسائل نظرآتے ہیں، ان کے عقب میں یہی دو بھوکیں جلوہ گر ہیں۔
موجودہ جنگ کا خونیں پردہ اگر اٹھادیا جائے تو لاشوں کے انبار کے پیچھے آپ کو ملک گیری کی بھوک کے سوا اور کچھ نظر نہیں آ ئے گا۔
بھوک کسی قسم کی بھی ہو بہت خطرناک ہے—— آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا—— روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آکر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے—— مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اُس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں۔
دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک اُن کی ماں ہے—— بھوک گدا گری سکھاتی ہے، بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے، بھو ک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے، بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے—— اس کا حملہ بہت شدید ، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کازخم بہت گہرا ہوتا ہے —— بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے۔ دیوانگی بھو ک پیدا نہیں کرتی۔
دُنیا کے کسی کونے کا مصنّف ہو، ترقیّ پسند ہو یا تنزّل پسند، بوڑھا ہو یا جوان ؛ اُس کے پیشِ نظر دُنیا کے تمام بکھرے ہوئے مسائل رہتے ہیں۔ چُن چُن کر وہ اُن پر لکھتا رہتا ہے؛ کبھی کسی کے حق میں، کبھی کسی کے خلاف۔
آج کا ادیب بنیادی طور پر آج سے پانچ سو سال پہلے کے ادیب سے کوئی زیادہ مختلف نہیں—— ہر چیز پر نئے پرانے کا لیبل وقت لگا تا ہے، انسان نہیں لگاتا—— ہم آج نئے ادیب کہلاتے ہیں، آنے والی کل ہمیں پرانا کر کے الماریوں میں بند کردے گی لیکن اِس کایہ مطلب نہیں کہ ہم بیکار جِیے، ہم نے مفت میں مغز دردی کی۔ گھڑی کی سوئی جب ایک سے گزر کر دو کی طرف رینگتی ہے تو ایک کا ہندسہ بے مصرف نہیںہو جاتا—— پورا سفر طے کرکے سوئی پھر اُسی ہندسے کی طرف لوٹتی ہے—— یہ گھڑی کا اصول بھی ہے اور دنیا کا بھی۔
آج کے نئے مسائل بھی گزری ہوئی کل کے پرانے مسائل سے بنیادی طور پر مختلف نہیں۔ جو آج کی بُرائیاں ہیں، گزری ہوئی کل ہی نے ان کے بیج بوئے تھے۔
جنسی مسائل جس طرح آج کے نئے ادیبو ں کے پیش نظر ہیں، اسی طرح پرانے ادیبوں کے پیش نظر بھی تھے—— اُنھوں نے اِن پر اپنے رنگ میں لکھا، ہم آج اپنے رنگ میں لکھ رہے ہیں۔
مجھے معلوم نہیں، مجھ سے جنسی مسائل کے متعلق بار بار کیوں پوچھا جاتا ہے—— شاید اس لیے کہ لوگ مجھے ترقی ّپسند کہتے ہیں یا شاید اس لیے کہ میرے چند افسانے جنسی مسائل کے متعلق ہیں۔ یا پھر اس لیے کہ آج کے نئے ادیبوں کو بعض حضرات ’’جنس زدہ‘‘ قرار دے کر انھیں ادب، مذہب اور سماج سے یک قلم خارج کردینا چاہتے ہیں—— وجہ کچھ بھی ہو، میں اپنا نقطۂ نظر بیان کیے دیتا ہوں:
روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد—— یہ دو بہت پرانے رشتے ہیں، ازلی اور ابدی —— روٹی زیادہ اہم ہے یا پیٹ؟—— عورت زیادہ ضروری ہے کہ مرد؟ میں اِس کے متعلق کچھ نہیںکہہ سکتا، اس لیے کہ میرا پیٹ روٹی مانگتا ہے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ گیہوں بھی میرے پیٹ کے لیے اتنا ہی ترستا ہے جتنا کہ میرا پیٹ !
پھر بھی جب میں سوچتا ہوں کہ زمین نے گیہوں کے خوشوں کو بیکار جنم نہیں دیا ہوگا تو مجھے خوش فہمی ہوتی ہے کہ میرے پیٹ ہی کے لیے وسیع وعریض کھیتوں میں سنہری بالیاں جھومتی ہیں اور پھر ہوسکتا ہے کہ میرا پیٹ پہلے پیدا ہوا اور گیہوں کی یہ بچّیاں کچھ دیر بعد۔
کچھ بھی ہو لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دُنیا کا ادب صرف اِن دو رشتوں ہی سے متعلق ہے —— الہامی کتابیں بھی جن کو آسمانی ادب کہنا چاہیے، روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد کے تذکروں سے خالی نہیں۔
مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مسائل اتنے پرانے ہیں کہ ان کا ذکر الہامی کتابوں میں بھی آچکا ہے تو پھر کیوں آج کے ادیب اِن پر خامہ فرسائی کرتے ہیں—— کیوں عورت اور مرد کے تعلّقات کو بار بار کریدا جاتا ہے اور بقول شخصے عریانی پھیلائی جاتی ہے؟—— جواب اِس سوال کا یہ ہے کہ اگر ایک ہی بار، جھوٹ نہ بولنے اور چوری نہ کرنے کی تلقین کرنے پر، ساری دُنیا جھوٹ اور چوری سے پرہیز کرتی تو شاید ایک ہی پیغمبر کافی ہوتا—— لیکن جیسا آپ جانتے ہیں ، پیغمبروں کی فہرست خاصی لمبی ہے۔
ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں۔ ہم ایک ہی چیز کو، ایک ہی مسئلے کو،مختلف حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آتا ہے، دُنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور ]دنیاکو؟[ کبھی مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے قبول ہی کرے۔
ہم قانون ساز نہیں، محتسب بھی نہیں۔ احتساب اور قانون سازی دوسروں کا کام ہے ۔ ہم حکومتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن خود حاکم نہیں بنتے۔ ہم عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں لیکن معمار نہیں۔ ہم مرض بتاتے ہیں لیکن دوا خانوں کے مہتمم نہیں۔
ہم جنسیات پر نہیں لکھتے؛ جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا کرتے ہیں، یہ اُن کی غلطی ہے۔ہم اپنے افسانوں میںخاص عورتوں اور خاص مردوں کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں—— ہمارے کسی افسانے کی ہیروئن سے اگر اُس کا مرد صرف اس لیے متنفّر ہو جاتا ہے کہ وہ سفید کپڑے پسند کرتی ہے اور سادگی پسند ہے تو دوسری عورتوں کو اِسے اصول نہیں سمجھ لینا چاہیے—— یہ نفرت کیوں پیدا ہوئی اور کن حالات میںپیدا ہوئی؟——اِس استفہام کا جواب آپ کو ہمارے افسانے میں ضرور مل جائے گا۔
جو لوگ ہمارے افسانوں میں لذّت حاصل کرنے کے طریقے دیکھنا چاہتے ہیں، اُنھیں یقینا نا اُ مید ی ہوگی—— ہم دائو پیچ بتانے والے خلیفے نہیں—— ہم جب اکھاڑے میں کسی کو گرتا دیکھتے ہیں تو اپنی سمجھ کے مطابق آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیوں گر اتھا؟
ہم رجائی ہیں —— دُنیا کی سیاہیوں میں بھی ہم اُجالے کی لکیریں دیکھ لیتے ہیں۔ ہم کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے—— چکلوں میں جب کوئی ٹکہائی اپنے کوٹھے پر سے کسی راہ گزر پر پان کی پیک تھوکتی ہے توہم دوسرے تماشائیوں کی طرح نہ تو کبھی اُس راہ گزر پر ہنستے ہیں اور نہ کبھی اُس ٹکہائی کو گالیاں دیتے ہیں—— ہم یہ واقعہ دیکھ کر رُک جائیں گے——ہماری نگاہیں اُس غلیظ پیشہ ور عورت کے نیم عریاں لباس کو چیرتی ہوئی، اُس کے سیاہ عصیاں بھرے جسم کے اندر داخل ہو کر، اُس کے دل تک پہنچ جائیں گی—— اُس کو ٹٹولیں گی اور ٹٹولتے ٹٹولتے ہم خود کچھ عرصے کے لیے تصوّر میں وہی کریہہ اور متعفّن رنڈی بن جائیں گے—— صرف اس لیے کہ ہم اُس واقعے کی تصویر ہی نہیں بلکہ اس کے اصل محرّک کی وجہ بھی پیش کر سکیں۔
جب کسی اچھّے خاندان کی جوان، صحت مند اور خوب صورت لڑکی؛ کسی مریل، بد صورت اور قلاّش لڑکے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو ہم اُسے ملعون قرار نہیں دیںگے—— دوسرے، اُس لڑکی کا ماضی، حال اور مستقبل، اخلاق کی پھانسی میں لٹکادیں گے لیکن ہم وہ چھوٹی سی گرہ کھولنے کی کوشش کریں گے جس نے اُس لڑکی کے ادراک کو بے حس کیا۔
انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دُکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دُنیا کی سب عورتیں ایسا کرسکتی ہیں—— لیکن غلط کار، انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور اُن کی فصلیں کاٹتا ہے۔
زیادہ تر جنسی مسائل ہی آج کے نئے ادیبوں کی توجّہ کا مرکز کیوں بنے ہیں؟ اس کا جواب معلوم کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں—— یہ زمانہ عجیب وغریب قسم کے اضداد کا زمانہ ہے—— عورت قریب بھی ہے، دور بھی ——کہیں مادر زاد برہنگی نظر آتی ہے، کہیں سر سے لے کر پیر تک ستر—— کہیں عورت مرد کے بھیس میں دکھائی دیتی ہے، کہیں مرد عورت کے بھیس میں۔
دُنیا ایک بہت بڑی کروٹ لے رہی ہے—— ہندوستان بھی؛ جہاں آزادی کا ننھّا منّا بچّہ غلامی کے دامن سے اپنے آنسو پونچھ رہا ہے، مٹی کا نیا گھر وندا بنانے کے لیے ضد کر رہا ہے—— مشرقی تہذیب کی چولی کے بند کبھی کھولے جاتے ہیں، کبھی بند کیے جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے چہرے کا غازہ کبھی ہٹایا جاتا ہے، کبھی لگایا جاتا ہے—— ایک افراتفری سی مچی ہے—— نئے کھٹ بُنے پرانی کھاٹوں کی مونج اُدھیڑ رہے ہیں، پرانے کھٹ بُنے چلّارہے ہیں۔ہلی ہوئی چولوں سے کہیں کھٹمل نکل رہے ہیں کہیں پسّو——کوئی کہتا ہے: انھیں زندہ رہنے دو۔ کوئی کہتا ہے: نہیں، فنا کردو—— اِس دھاندلی میں، اِس شورش میں، ہم نئے لکھنے والے اپنے قلم سنبھالے، کبھی اِس مسئلے سے ٹکراتے ہیں کبھی اُس مسئلے سے۔
اگرہماری تحریروں میں عورت اور مرد کے تعلقات کا ذکر آپ کو زیادہ نظر آئے تو یہ ایک فطری بات ہے—— ملک ، ملک سے سیاسی طور پر جد ا کیے جاسکتے ہیں—— ایک مذہب دوسرے مذہب سے عقیدوں کی بنا پر علاحدہ کیاجاسکتاہے۔ دو زمینوں کو ایک قانون، ایک دوسرے سے بیگانہ کر سکتا ہے لیکن کوئی سیاست ،کوئی عقیدہ ، کوئی قانون ؛ عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا ۔
عورت اور مرد میں جو فاصلہ ہے، اس کو عبور کر نے کی کوشش ہر زمانے میں ہوتی رہے گی—— عورت اور مرد میں جو ایک لرزتی ہوئی دیوار حائل ہے، اُسے سنبھالنے اور گرانے کی سعی، ہر صدی، ہر قرن میں ہوتی رہے گی—— جو اسے عریانی سمجھتے ہیں، انھیں اپنے احساس کے ننگ پر افسوس ہونا چاہیے—— جو اسے اخلاق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اخلاق، زنگ ہے جو سماج کے اُسترے پر بے احتیاطی سے جم گیا ہے۔
جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کیے ہیں، غلطی پر ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے اِس نئے ادب کو پیدا کیا ہے—— اِس نئے ادب کو جس میں آپ کبھی کبھی اپنا ہی عکس دیکھتے ہیں اور جھنجلا اُٹھتے ہیں—— حقیقت خواہ شکر ہی میں لپیٹ کر پیش کی جائے، اُس کی کڑواہٹ دور نہیں ہوگی۔
ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں مگر اب تک جو مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رہی ہیں، اُن سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ —— نیم کے پتّے کڑوے سہی مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔